
اہلِ سیاست پر کڑا وقت
جمعہ 3 نومبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہمارے ”جُزوقتی“ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی بیچارے حیران بھی ہیں اور پریشان بھی کہ اب جائیں تو جائیں کہاں۔
اُنہوں نے تو وزارتِ عظمیٰ کے مزے لوٹنے کے لیے یہ عہدہ قبول کیا لیکن ”سَر منڈواتے ہی اَولے پڑے“ کے مصداق وہ ابتداء ہی میں”وَخت“ میں پڑ گئے۔ اُن کی صورتِ حال کچھ یوں ہے کہکعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسا میرے آگے
ہم سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کی اِس ضِد کے پیچھے عمران خاں کا ہاتھ ہے۔ میاں صاحب کے اندر یقیناََ یہ سوچ پَل بڑھ کر جوان ہو چکی ہے کہ جب اتنا کچھ کرنے کے باوجود کوئی کپتان پر ہاتھ نہیں ڈال سکا تو وہ تو پاکستان کی تاریخ کے پہلے تین بار کے منتخب وزیرِاعظم ہیں ،بھلا اُن پر کون ہاتھ ڈال سکے گا۔ پاکستان کی گزشتہ چار سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اِس دَور میں جو کچھ کپتان نے کیا ،اگر اُس کا عشرِعشیر بھی کوئی دوسرا کرتا تو اُس کو ”پھڑکا“ کے رکھ دیا جاتا۔ 126 روزہ دھرنا ، پارلیمنٹ اور وزیرِاعظم ہاوٴس پر حملہ، پی ٹی وی پر قبضہ اورسول نافرمانی کا اعلان، یہ سب کپتان ہی کے کھاتے میں جاتے ہیں۔ اداروں کے خلاف آگ اُگلنے کو تو رکھیئے ایک طرف کہ یہ داستان طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ لیکن جس عدلیہ کے وہ پاسبان بنے بیٹھے ہیں، اُسی عدلیہ کے ایک حصّے نے اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ،اُنہیں مفرور بھی قرار دیا اور جائیداد کی قُرقی کا حکم بھی لیکن ہوا ”کَکھ“ بھی نہیں البتہ فدایانِ عمران خاں کو یہ چیلنج کرتے ضرور سُناکہ کپتان بنی گالہ میں بیٹھا ہے ”پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو“۔ بھلا کس کی مجال کہ اُس کپتان پر ہاتھ ڈال سکے جس کو” زورآوروں“ کی آشیرباد حاصل ہے۔ اب بڑے میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ کپتان کے پیچھے تو زورآوروں کا ہاتھ ہے لیکن اُن کی تو لڑائی ہی زورآوروں سے ہے ۔اِس لیے یا تو میاں نوازشریف کو اپنے غصے پر قابو پانا ہوگا یا پھر ”کھُنے سیک“ جانا اظہر مِن الشمس۔ البتہ”کھُنے سِکنے“ کی صورت میں مسلم لیگ نون زیادہ مضبوطی سے اپنے قدم جما لے گی کیونکہ جیل میں بیٹھا نوازشریف جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے نوازشرف سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگا۔
30 اکتوبر کو لندن کی ٹھنڈی ٹھار فضاوٴں میں، اکابرینِ نوازلیگ ،شاہد خاقان عباسی ،میاں شہباز شریف، خواجہ آصف اور اسحاق ڈار، بڑے میاں صاحب کی سربراہی میں سر جوڑ کر بیٹھے ۔ اِس میٹنگ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے ہوا ، جس کے بارے میں ہمیں ”کَکھ“ پتہ نہیں کیونکہ ہمارے پاس سلیمانی ٹوپی نہیں ۔ شنید ہے کہ کپتان کے پاس ایک سلیمانی ٹوپی والا ہے جو اُنہیں اندر کی ساری خبریں لا کر دے دیتا ہے۔ اِسی لیے اُنہیں لندن میں ہونے والی ملاقات کی ساری خبریں مل گئیں اور اُنہوں نے سارا ”لندن پلان“ ہی بے نقاب کر دیا۔ اُنہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹوئیٹ میں کہا”نوازشریف این آر او کے لیے بے چین ہورہے ہیں۔ وہ بیرونِ ملک تین سو ملین بچانا چاہتے ہیں۔ لندن گیم پلان سامنے آگیا۔ نوازشریف ،پارٹی کونیب ،عدلیہ اور فوج کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کریں گے تاکہ این آر او ہوسکے“۔ کپتان کو یہ سب کچھ چونکہ ”سلیمانی ٹوپی“ والے نے بتایا ہے جو بذاتِ خود اُس میٹنگ میں ٹوپی پہن کر موجود تھا ،اِس لیے یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ ویسے بہتر ہوتا کہ کپتان صاحب شفقت محمود کو بھی بتا دیتے جس نے ”ایویں خواہ مخواہ رَولا“ ڈالا۔
شفقت محمود نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” لندن میں جو کھچڑی پک رہی ہے ،اُس سے قوم کو آگاہ کیا جائے“۔ کوئی بھولے بھالے شفقت محمود سے پوچھے کہ کپتان نے 2014ء میں ہونے والے اُس ”لندن پلان“ کا کسی سے ذکر کیا تھا؟ جس میں مولانا طاہرالقادری اور عمران خاں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اِدھر وہ لوگ اپنے لاوٴ لشکر کے ساتھ ڈی چوک اسلام آباد پہنچے اور اُدھر امپائر کی انگلی کھڑی ہوئی۔دونوں نے زورآوروں کی ہدایت پر مَن وعن عمل کیا لیکن ”انگلی“ کھڑی نہ ہوئی۔ مولانا طاہرالقادری تو جلد ہی مایوس ہوکر اپنے وطن کینیڈا لوٹ گئے لیکن کپتان امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظار میں 126 روز تک بے چینی سے کنٹینر پر ٹہلتے رہے۔ اگرکپتان کودھرنا ختم کرنے کے لیے سانحہ اے پی ایس پشاورکابہانہ نہ ملتا تو شاید وہ آج بھی ڈی چوک اسلام آباد میں کنٹینر پر ٹہلتے پائے جاتے۔ اِس لیے شفقت محمود صاحب! ایسی خفیہ میٹنگز کا احوال ظاہر نہیں کیا جاتا۔
ہمیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے زورآوروں کا مطمح نظر صرف مائنس میاں نواز شریف ہی نہیں بلکہ وہ سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ ہی سے ”اَوازار“ ہیں۔ میاں نواز شریف نااہل ہو چکے ،احتساب عدالت میں اُن کے کیس کھُل چکے ،اسحاق ڈار شکنجے میں اور کپتان کو بیک وقت سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں کیسز کا سامنا۔ شنید ہے کہ آصف زرداری کے کیسز بھی ”ری اوپن“ ہونے والے ہیں اور مشرف کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ کرنے والے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے خلاف مقدمات بھی کھُل گئے۔ اُن پر وہی الزام ہے جو اسحاق ڈار پر۔ اُنہیں نیب نے آمدن سے زائد اثاثو ں کے مقدمے میں 6 نومبر کو طلبی کا سمن جاری کر دیا ہے۔ اب صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ سیاست دان عدالتوں کے چکر کاٹتے رہیں گے اور زورآور سکون سے اپنے ارادوں کی تکمیل میں مگن۔ ہمیں میاں نواز شریف کے اِس بیان پر ہنسی آتی ہے کہ عوام کے سوا مائنس ،پلس کا فیصلہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ محترم ! یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس میں صرف زورآوروں کا ہی زور چلتا ہے ،عوام بیچارے ہیں کس باغ کی مولی گاجر۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.