عورت مارچ، آزادی مارچ، یا کچھ اور۔۔۔؟

جمعہ 19 مارچ 2021

Raja Muhammad Ali

راجہ محمد علی

آج کل پاکستان  میں کچھ عورتیں جو عورت کہلانے کے قابل نہیں وہ برائے نام عورتوں کے حقوق کے نام پے کیا فحاشی پھیلا  رہی ہیں۔میری عمر اتنی نہیں لیکن میں اس چھوٹی سی عمر کے تجربے سے کہتا ہوں کہ جتنے حقوق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورتوں کو دیے جاتے ہیں اتنے کسی اور جگہ نہیں۔اگر ایک عام مثال لے کسی جگہ ایک قطار میں پانچ مرد ہوں اور وہاں ایک عورت آجائے تو سب کہتے  ہے کہ ان کو جانے دے یہ ہے عزت، احترام عورت کا اس معاشرے میں۔

لیکن دوسری طرف عورت کے نام پر کلنک چند عورتیں جن کو یہ نہیں پتا کے اسلام وہ واحد مذہب جس نے عورت کو اتنا مقام دیا جو کسی اور مذہب میں نہیں۔اسلام میں عورت کے مقام  ماں سے لگا سکتے  ہیں جس کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی۔ان سب باتوں کو الگ رکھے اور پاکستان کی بات کرے جہاں اقلیتوں کو آزادی حاصل ہے وہاں کو کس جگہ حقوق نہیں ملتے؟ایک سرکاری ادارے سے لیکر غیر سرکاری تک،ایک سکول سے لیکر یونیورسٹی تک عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

(جاری ہے)

ہماری گورمنٹ کی بات کرے تو وہاں  پر الگ نشست ان کے لیے رکھی گئی، جہاں سب مرد نہیں آہ سکتے جیت کے لیکن اگر سب عورتیں ہر نشست  پر جیت جائے تو سارا کا سارا عورتوں  کا ہو سکتا ہے پارلیمنٹ۔
بنیادی نکتہ یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ عورت کم دوسرے افراد کی شرکت ہمارے سماج کی خواتین کی نمائندگی نہیں کرتی اور یہ جتنی قلیل ترین تعداد میں ہیں انھیں خود کو نمائندہ کہلوانے کا حق بھی نہیں ہے۔

میں نے پہلی بار عورت مارچ جو  لاہور میں ہوئی اس کی تصاویر اور ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا کہ مارچ مین شریک زیادہ سے زیادہ300 افراد میں اکثریت لڑکوں کی تھی اور مارچ میں شریک یہ قلیل تعداد وہاں صرف موج مستی کیلئے آئے ہوئے تھے۔ یہ بات بہت ہی سخت ترین تصور کی جائے گی کہ ان افراد کے میڈیکل چیک اپ کرائے جائیں تو شاید ہی آپ کو کوئی غیر شادی ہونے کے باوجود کنورہ ملے۔

ان افراد کو انتہائی قریب سے دیکھنے اور مشاہدہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ رات کی تاریکیوں میں یہ افراد انسانی اقدار سے آزاد زندگی بسر کرتے ہیں اور نجی محافل میں تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں جنھیں مذہب اور سماجی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مارچ میں لگائے گئے نعروں اور پوسٹرز کی حقیقت ہیرا منڈی کی ان طوائفوں کی مانند ہے جو رات بھر جسم فروشی کرتی ہیں اور صبح اٹھ کر میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہیں۔

یہ قلیل گروہ محض سماج میں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے، اور انتشار کا ایجنڈا ہمیشہ استعماری حربہ یا منصوبہ ہوتا ہے۔ عورت مارچ کے اس رجحان سے سماج میں خواتین کے حقوق کی حقیقی آواز کو بھی دبایا جا رہا ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ پاکستان میں عورت مارچ کوئی تحریک نہیں ہے یہ محض سالانہ تفریحی میلہ ہے جس کا عورت کی مظلومیت سے کوئی سروکار نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :