حکومت بمقابلہ گنا اور چینی‎

ہفتہ 5 جون 2021

Rana Adnan Shahzad

رانا عدنان شہزاد

اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے اور مہنگائی پر قابو پانا موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصہ سے روز مرہ استعمال کی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 11ماہ میں مہنگائی کی شرح 8.83 فیصد رہی۔

ادارہ شماریات کے مطابق 9 ماہ میں شہروں میں یہ شرح 8 فیصد اور دیہی علاقوں میں 10 اعشاریہ 06 فیصد رہی۔اس دوران کھانے پینے کی کچھ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ کچھ کی قیمتوں میں کمی بھی ہوئی۔
ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال میں بکرے کے گوشت کی فی کلو قیمت میں 104روپے46پیسے، گائے کا گوشت 59 روپے 50 پیسے، زندہ مرغی برائلر 91 روپے 54 پیسے، گڑ 5روپے 95پیسے مہنگا ہوا۔

(جاری ہے)

گھی کا ڈھائی کلو کا ڈبہ 129 روپے 36 پیسے، تازہ دودھ 10 روپے 79پیسے فی لیٹر، دہی 14روپے 45 پیسے فی کلو، انڈے30 روپے61 پیسے درجن، کیلے39روپے 64 پیسے درجن مہنگے ہوئے۔چاول7روپے64 پیسے فی کلو، دال ماش 11 روپے 70 پیسے، دال چنا 8 روپے13 پیسے جبکہ ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 36روپے 12پیسے کا اضافہ ہوا۔حالیہ ایک سال میں ٹماٹر 6 روپے35 پیسے فی کلو، آلو10روپے80 پیسے، پیاز 6 روپے 28 پیسے، دال مسور4 روپے 28 پیسے، دال مونگ50 روپے 46 پیسے فی کلو سستی ہوئی۔

ادارہ شماریات نے یہ بھی بتایا کہ جون 2020 میں مہنگائی کی شرح 8.59 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 10.87 فیصد ہوچکی ہے۔ادارہ شماریات کے مطابق جون 2020 میں چینی کی اوسط قیمت 80 روپے 92 پیسے فی کلو تھی جو اب بڑھ کر اب97 روپے 43 پیسے فی کلو ہوچکی ہے۔ادارہ شماریات کے مطابق اسی عرصہ میں چینی اوسط 16روپے51 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی۔آٹے کا 20 کلو کا تھیلا اوسط 118 روپے 55 پیسے مہنگا ہوا۔

جون 2020 میں آٹے کا 20 کلو تھیلا 1010 روپے 14 پیسے کا تھا جس کی قیمت اب بڑھ کر 1128 روپے 69 پیسے ہوچکی۔
دیکھا جائے تو حکومتیںچینی اور آٹے جیسی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کبھی 1958کے قانون کے تحت اور کبھی 1977کے قانون کے تحت مقرر کرتی چلی آئی ہے لیکن آج تک عوام نے دیکھا کہ کسی بھی اشیائے ضروریہ کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بتدریج بڑھتی ہی چلی گئیں۔

اگر کسی چیز کی قیمت میں کمی ہوئی تو وہ صرف اور صرف مارکیٹ میں طلب و رسد کے اصول کے تحت ہی ہوئی ۔
حال ہی میں حکومت پنجاب نے گندم کی قیمت 1800روپے من مقرر کی ،لیکن سندھ حکومت نے یہ قیمت 2000 روپے فی من مقرر کی ۔بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ایک ملک کے مختلف حصوں میں مختلف قیمتیں چل رہی ہیں۔اب پنجاب میںبھی گندم کی قیمت 1940روپے فی من ہو چکی ہے حالانکہ حکومت کسانوں سے یہی گندم 1800روپے فی من خرید چکی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں گندم کی قیمت 2100روپے فی من ہو چکی ہے۔

اس سے کسانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔اگر یہی مارکیٹ میں طلب و رسد کے مطابق ہوتی تو اس سے کسان کو بھی فائدہ ہوتا ۔اس وقت قیمت زیادہ ہونے کے باوجود گندم کی دستیابی میں مشکل ہو رہی ہے کیونکہ کسان کم قیمت پر گندم فروخت کر چکے ہیں ۔
اسی طرح حکومت نے گنے کی مارکیٹ کی قیمت (265روپے سے 285روپے فی من رہی )جو کہ حقیقتاً 200روپے فی من ہونی چاہیے تھی ، کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چینی کی قیمت بھی بغیر سوچے سمجھے مقرر کر دی تھی ،جس سے چینی کا بحران پیدا ہو گیا ۔

ایک طرف قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تو دوسری طرف دستیابی بھی مشکل ہو گئی۔مسابقتی کمیشن پاکستان نے حکومت کے اس اقدام پر نکتہ چینی کی اور حکومت کو سابقہ ادوار کی مثالیں دیتے ہوئے چینی کی قیمت مقرر کرنے سے باز رہنے کی سفارش کی اور اسے مارکیٹ کے مطابق ازخود چلنے کا مشورہ دیا مگر اس کے باوجو د حکومت پنجاب نے قیمت مقرر کی اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھا۔


حکومت جب اپنے طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیںزبر دستی مقرر کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ عالمی بینک ،ورلڈ فوڈ پروگرام اور دوسرے بین الاقوامی ادارے بھی اس بات کو باورکرواتے ہیں کہ قیمتوں کا تعین مارکیٹ نظام سے ہے اور اسے مارکیٹ میں طلب و رسد کے مطابق ہی چلنا چاہیے ۔اب حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی اشیائے خوردونوش کی کمی نہ ہونے دے۔

بروقت فیصلہ کرے کہ کس چیز کو ضرورت سے زیادہ ہونے پر برآمد کرنا ہے اور کس چیز کو کمی کی بنیاد پر در آمد کرنا ہے ۔اگر حکومت ان اقدامات کیلئے موثر حکمت عملی اختیار کرے تونہ صرف مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گی بلکہ کسان اور کاروباری طبقہ بھی نقصان سے بچ جائے گااور ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :