ایلئن کے خواب، خیالات اور خواہشات کا سائنس، سچ اور سمجھداری سے بندھن

پیر 8 فروری 2021

Roohi Bano Obaid

روحی بانو عبید

انیس سالہ کیمیا میں ڈگری کے ساتھ  گیرٹروڈ ایلئن ملازمت کی تلاش میں نکلیں۔ بلا معاوضہ کام کرنے والی لیبارٹری کی ورکر سے لے کر کیمیا کی استانی کے طور پر کام کیا، جسے بچپن میں کہا گیا تھا کہ عورتیں کیمیاء نہیں پڑھ سکتیں۔نیویارک میں رہائش پذیر ایک خوشحال یہودی خاندان میں 1918 میں پیدا ہونے والی گیرٹروڈ ایلئن کا بچپن خوشیوں سے مزین تھا۔

وہ روس سے آنے والے اپنے دادا کے بہت قریب تھی۔ 15 برس کی عمر میں گیرٹروڈ ایلئن اپنے دادا کی بے بس موت کی گواہ رہی۔ وہ معدے کے کینسر میں مبتلا درد ناک موت سے دوچار ہوئے۔ یہ وہی وقت تھا جب گیرٹروڈ ایلئن نے حوصلہ پایا کہ وہ کچھ ایسا کرے کہ اس درد ناک بیماری سے مرض میں مبتلا مریضوں کو چھٹکارا مل سکے۔ اسٹاک مارکیٹ کے حادثے نے 1929 میں اس کنبے کو دیوالیہ کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

اچھے نمبر لانے کی وجہ سے اس کو کالج میں مفت داخلہ مل گیا تھا لیکن اس کے بعد گریجویشن کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ وہ فیلوشپ کی تلاش میں تھی اور خواتین کو خصوصا زمانہ افسردگی میں فیلو شپ نہیں ملتی تھی۔ ادھر اس کی ماں اس کے مستقبل کے خواب دیکھ رہی تھی۔ خود اعلی تعلیم یافتہ نہ سہی مگر اپنی بچی کی خواہش سمجھتی تھی۔
1944 میں بلاآخر برطانوی ادویہ ساز کمپنی ویلکم میں اسے اپنے خوابوں کی ملازمت مل گئی۔

یہ وہی کمپنی ہے جو آج گلیکسو اسمتھ کلائین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ جارج ہنچنگز کی سائنسی تحقیق میں معاونت کرتی تھیں۔ ہنچنگز اور ایلئن نے منطقی ترقی کے روایتی آزمائشی اور غلطی کے نقطہ نظر کو عقلی سائنسی نقطہ نظر کے حق میں مسترد کردیا۔ یہ سمجھتے تھے کہ تمام خلیوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے نیوکلک ایسڈ کی ضرورت ہوتی ہے ، انہوں نے یہ دلائل دئے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے بیکٹیریا اور ٹیومر کو نشوونما کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ نیوکلک ایسڈ درکار ہوتا ہے۔

بیماری یا کینسر کو روکنے کے لئے اس راستے کی تلاش کرنی ہوگی جو نیوکلک ایسڈ کی زندگی کو ختم کرسکے یا اس میں رکاوٹ ڈال سکے۔ اس للکار نے نئی راہیں متعین کردیں اور بعد ازاں کامیابی کے جھنڈے مضبوطی سے گاڑ دئے۔
ٹھیک 5 سال بعد 1950 میں جب وہ بتیس سال کی عمر کو پہنچیں تو انہوں نے پہلا پیورین کمپاؤنڈ دریافت کیا۔ 6 مرکیپٹو پیورین۔ خون کے کینسر جس میں سفید خلیے زیادہ بننے شروع ہوجاتے تھے اس میں حیرت انگیز طور پر فائدہ مند ثابت ہوا ۔

آنا فانا دوا مریضوں تک پہنچنے لگی لیکن یہ فائدہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکا اور بیماری دوبارہ مریضوں میں واپس آجاتی تھی۔ ایلئن پرعزم اور تعاقب میں تھی۔اس کی ایک اور دوا ایزتھروپائرین کی دریافت نے تہلکہ مچایا۔ یہ وہی دوا ہے جس کی وجہ سے پہلی بار انسانی اعضاء کی پیوندکاری ممکن ہوئی۔ جب بھی انسانی اعضاء کی پیوندکاری کی جاتی ہے تو انسانی جسم اسے قبول نہیں کرتا۔

یہ دوا انسانی جسم کے متوقع ردعمل کو قابو میں رکھنے کے لیے مددگار ثابت ہوئی۔ ایلئن کے تجسس نے اسے ایک اور کامیابی سے 1963 میں ہمکنار کیا۔ ایلوپیورینول جو یورک ایسڈ کی انسانی جسم میں پیداوار کو کم کرتی ہے اور گھٹیا کو قابو میں رکھتی ہے، اسے بھی انہوں نے دریافت کیا۔ یورک ایسڈ کا بڑھنا کینسر کے مریضوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ یہ دوا آج بھی مریضوں کے لیے نعمت ہے۔

ترقی اور کامیابی کا سفر جاری رہا۔ قدرت مہربان تھی۔ ایلئن کے سر پر پہلی اینٹی وائرل دوا اے سائیکلوویر دریافت کرنے کا سہرا بھی جاتا ہے۔ 1977 میں منظور ہونے والی اس دوا پر بہت سے خدشات تھے۔ اینٹی وائرل دوا کے انسانی جسم کے خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا اندیشہ اس وقت کی شہ سرخی تھا۔ یہ آغاز تھا جس نے ایڈز کے خلاف دواوں کی راہیں ہموار کیں۔

دنیا میں آج بھی اعضاء کی پیوندکاری انہی کی مرہون منت ہے۔ 1988 میں انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ایلئن 1999 میں اس دنیا سے باوقار رخصت ہوئیں۔ آپ کی زندگی روزانہ ہزاروں کو زندگی مہیا کرتی ہے۔ خیالات پر، خواہشات پر، خوابوں پر پابندی نہ لگائیں۔
 آج ایک بار پھر تاریخ کے نئے دوراہے پر ہم کھڑے ہیں۔ نئے مواقع کروٹ لے رہے ہیں۔ ریگولیٹری سائنس میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئ تبدیلی بلکل نئی شکل میں ڈھل رہی ہے۔

مریض محور جبکہ سائنس، سچائ اور سمجھداری مقدم ہے۔ مصنوعی ذہانت اور اعداد و شمار میں جکڑے لمحوں میں چوکنے کا موقع نہیں۔ ابھرتی ادویہ سازی کی دنیا میں مختلف موضوعات کو مربوط کرنے کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر مستقل طور پر بدلتے ہوئے ریگولیٹری قوانین  کے ساتھ یہ کام کافی دشوار ہوسکتا ہے۔ ہواؤں کی سرسراہٹ میں کل کی موسیقی کو آج سننے کی کوشش آپ کو ممتاز کر دے گی ۔ کل کی دنیا ٹیکنالوجی کے معراج پر ہے ۔ چھپانے کے نہ اسباب بچے نہ اب ہمارے پاس کچھ ہے ۔ شکر خداوند کا کہ خیالات اور خواب کے معمار ہم خود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :