دوائیں واپس اُٹھوانا ناگزیر تھا

منگل 26 جنوری 2021

Roohi Bano Obaid

روحی بانو عبید

کروڑوں کیپسول کی میعاد باقی تھی، بازار میں دستیاب تھے، استعمال ہورہے تھے ۔ نہ کوئی شور تھا، نہ کوئی شکایت۔ اخبار میں سینکڑوں بیچ کی واپسی کا اشتہار شائع ہوا کیونکہ دوا (آئرن اور وٹامن) کیپسول سے باہر آنے سے قاصر تھی۔ وہ کیا جذب ہوتی، کیا طبی فائدہ پہنچاتی۔ وہ شاید بے ضرر تھی لیکن وعدہ خلافی میں غیر ارادی طور پر ملوث تھی۔

قدرت خون بنارہی تھی دوسری طرف ڈاکٹر اور مریض دونوں دھوکہ کھا رہے تھے۔
ہڈیوں سے جیلاٹن نکالی جاتی ہے۔ یہ وہی جیلاٹن ہے جو پائے کے شوربے پر ایک چپچپی سی تہ بنا لیتی ہے۔ دوا کے کیپسول اسی جیلاٹن سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک سخت اور ایک نرم۔ سخت کو دبانے سے چٹخنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ نرم میں رسنے کا۔

(جاری ہے)

سخت کیپسول دو مساوی ٹکڑوں میں دستیاب ہوتا ہے اور یہ دو ٹکڑے آپس میں جڑ کر ایک کیپسول بناتے ہیں۔

نرم کیپسول سالم ہوتا ہے اور دونوں کیپسول دواوں کی خوراک کو اپنے اندر سمو کر صارف تک پہنچتے ہیں اور صارف کے کیپسول نگلنے کے بعد دوا کو مخصوص جگہ پر آزاد کرتے ہیں جہاں سے دوا جذب ہو کر خون میں پہنچتی ہے اور خون دوا کو اس کے اصل جائے مقام پر چھوڑ آتا ہے۔
سخت کیپسول بنے بنائے ملتے ہیں اور دوائیں ان میں بھر کر مخصوص دوا کی مخصوص خوراک کی شکل دی جاتی ہے۔

یہ اتنی آسان سی بات بھی نہیں۔ ایک دوا کو ان تھک محنت،  ذہانت اور دانشمندی کے سہارے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کلیے کو بعد ازاں تالا لگایا جاتا ہے۔ بہترین حکمت عملی کے ذریعے دواوں کی تیاری کو اس طرح قابو میں رکھا جاتا ہے کہ ہر خوراک خالص، آلودگی سے پاک ایک جیسی اور بار بار ایک جیسی، تواتر سے دعووں کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ گرمی ہو یا سردی، صبح ہو یا شام، دوائیں آج بنی ہوں یا سالوں پہلے، اگر میعاد باقی ہے تو اثرات میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔

یہی ادویہ سازی کا حسین وعدہ اسے دوسری صنعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔  
 نرم جیلاٹن والے کیپسول خالی دستیاب نہیں ہوتے بلکہ پگھلا ہوا جیلاٹن کیپسول کی شکل بنا رہا ہوتا ہے اور عین اسی وقت اس کے شکم میں دوا پرو دی جاتی ہے۔
کیپسول سے دوا جسم میں باہر آ پائے گی یا نہیں، یہ دیکھنے کے لیے تجربہ گاہ میں کیپسول کے گھلنے کا مظاہرہ محلول میں دیکھا جاتا ہے۔

آنکھیں کھلی رہ گئیں تھیں جب نرم جیلاٹن والے کیپسول پانی سے بھرپور مزاحمت رکھتے تھے اور گھنٹوں بعد بھی گھلنے پر تیار نہ تھے۔ یکے بعد دیگرے نمونوں کو مخصوص طریقے سے جانچا  گیا۔ کوئی بھی نمونہ گھلنے پر تیار نہ تھا۔ دوا کیسے باہر آتی، کیسے جذب ہوتی، کیسے فائدہ پہنچاتی۔ جانچتے جانچتے شام ہو چکی تھی۔ بڑی کمپنی کی لاپرواہی نے سکتہ طاری کردیا تھا۔

مشین کیپسول بنائے جارہی تھی۔ یہ ناقص کیپسول سالوں سے بازار میں جارہے تھے۔ لاکھوں کیپسول کا ایک بیچ تھا۔ سینکڑوں بیچ واضح فیل نظر آ رہے تھے۔ مشینوں کے بند کرنے کے احکامات جاری کرنا بھاری نہ تھا مگر فون پر آنے والی سفارشوں کا دباؤ کوفت کا حجم بڑھا رہا تھا۔ اربوں روپے کی دوا معصوم عوام کھاچکے تھے۔ نہ ڈاکٹر نے محسوس کیا نہ کھانے والے کو احساس ہوا کہ دوا جسم میں جذب ہونے کے لئے دستیاب ہی نہیں۔

بغیر مکمل مطالعے کے جیلاٹن کے ذرائع کو تبدیل کرنا اس ناکامی کی بعد ازاں وجہ قرار پایا۔ تقریبا دوسال لگ گئے کثیر الاقوامی کمپنی کے پلانٹ کو واپس اپنی جگہ آنے میں۔ اپنے وقت کی ملک کی واحد نرم جیلاٹن کے کیپسول والی کمپنی دو برس بند رہی اور کئی اہم دوائیں آج پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی واپس نہ آسکیں۔ دوائیں جان بچانے کا ذریعہ ہیں۔ اس کی نزاکت آپ کی توجہ کی مستقل متقاضی ہے۔ نیند کی کوئی گنجائش نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :