دوائیں، الرجی اور عظیم ذمہ داری

ہفتہ 23 جنوری 2021

Roohi Bano Obaid

روحی بانو عبید

زندگی اور موت کے درمیان جب فاصلہ کی گلی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تنگ ہورہی تھی۔ گاڑی سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ جوان لڑکا اپنی ماں کو لئے گاڑی کی رفتار کم کرنے پر تیار نہ تھا۔ ادھر بچے دادی کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے اور گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ آنا فانا چند لمحوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔ کسے پتا تھا خود سے گاڑی چلا کر آنے والی دادی کی زندگی لمحوں میں برف کی پگھلتی ہوئی کمزور سطح پر پہنچ چکی تھی۔

دادی کے پورے جسم میں بد ترین الرجی کا حملہ نمایاں تھا۔ شکر ہے کہ اسپتال قریب تھا اور سڑکیں خالی۔ دوا دستیاب تھی۔ دوا کے جسم میں جاتے ہی زندگی کی روح اسی رفتار سے واپس آنے لگی۔
معصوم گھٹنوں کے بل چلتا پوتا دادی کو دیکھ کر ان کی طرف لپکا۔

(جاری ہے)

دادی پوتے کی طبیعت خراب سن کر اپنا سفر درمیان میں چھوڑ کر گھر واپس پہنچی تھیں۔ دادی نے جھٹ پٹ اسے سینے سے لگا لیا۔

پوتے نے اپنے ہاتھ میں لولی پوپ پکڑا ہوا تھا۔ لاڈ میں دادی کو چاٹنے پر اصرار کیا۔ دادی نے فوراً پوتے کی محبت میں اپنا منہ کھول دیا۔ لولی پوپ کا زبان پر لگنا تھا کہ یہ سب پر قہر بن کر ٹوٹا۔  دادی کی طبیعت غیر ہونے لگی۔ الٰہی کیا ماجرا تھا۔ بچہ اسی لولی پوپ کو چوس رہا تھا۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔ وہ دادی کی حالت دیکھ کر سہم چکا تھا۔
بچے کو بخار پر ڈاکٹر نے ایک دوا تجویز کی تھی جس کے کچھ قطرے نسخے کے مطابق بچے کو پلائے گیئے تھے۔

دوا پینے کے انعام میں اور دوا کی بدمزگی کے پیش نظر، لولی پوپ بعد ازاں دیا گیا تھا۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً دوا کا کوئی ذرہ یا بچے کا دوا سے آلودہ لعاب لولی پوپ سے لگ کر دادی کی زبان تک پہنچ چکا تھا۔ دادی بدقسمتی سے اس دوا سے الرجک تھیں۔ قدرت نے دادی کی جان بچالی کیونکہ گاڑی بھی دستیاب تھی، سڑکیں بھی خالی تھیں، اسپتال بھی قریب تھا، الرجی کی وجہ کا علم بھی تھا اور دوا بھی موجود تھی۔


ہر حادثہ کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ الرجی کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ بعض چیزوں سے شدت کی حساسیت رکھتے ہیں جن میں دوائیں یا اس کے اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک دوا میں دوسری دوا کی مقررہ نخیف مقدار سے زیادہ کی آلودگی کبھی کبھی کسی کے لیے ہولناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے ۔ ستم یہ ہے کہ دو چار ہونے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس کی یا اس کے پیارے کی جان کیوں گئی۔

کسی کی معمولی سی غلطی یا لاپرواہی یا مضمون کی اہمیت سمجھنے سے اس کے ذہن کا مفلوج ہونا اس قسم کے نامعلوم حادثات کی وجہ بنتا ہے اور بےبس اللہ کی مرضی جان کر صبر کر لیتے ہیں۔
دوا بناتے وقت، مشینوں کی صفائی کے وقت خاموش ہولناک نتائج کے تصورات کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیے ۔ مذکورہ واقعہ پینسلین کا ہے۔ سائنس اس کم سے کم مقدار کے بارے میں نہیں جانتی جو الرجی کا باعث بن سکتا ہے۔

جس مقدار کا پتہ نہ ہو اسے قابو میں رکھنے کا تصور صرف دھوکہ ہے۔ پینسلین کو کبھی بھی دوسری دواؤں کے ساتھ نہ بنائیں۔ جہاں پینسلین بنائی ہو، وہاں کبھی کوئی دوسری دوا بنانے کا تصور بھی نہ کریں۔ مشینیں، برتن، اوزار سب الگ رکھیں یہاں تک کہ پینسلین بننے والی سہولت کی ہوائیں بھی غلطی سے کسی دوسری دوا کے ساتھ نہ مل سکیں۔ پینسلین بنانے والے کارخانے میں کام کرنے والے افراد کا دوسری دوائیں بنانے والی سہولت میں جانا زہرقاتل کی طرح قابو میں رکھنا لازمی ہے ۔

لاپرواہی یا غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ان حدود سے باہر ناقابل تلافی بے آواز طوفان زندگی اور موت کے درمیان حائل دیوار کو خطرات سے دوچار کر دیتی ہے ۔ یہ رنگوں کا نہیں، کسی یا کسی کے پیارے کی جان کا معاملہ ہے۔
آپ فارمیسی میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن امریکہ، کینیڈا اور عالمی ادارہ صحت سے درجنوں ٹریننگ حاصل کر چکی ہیں ۔ متعدد تعلیمی سرگرمیوں اور جامعات میں لیکچرر دینے کے علاوہ تقریبا دو دہائی حکومت پاکستان کی سول سروس آفیسر کی حیثیت میں ڈرگ ریگولیشن اور  وفاقی وزارت صحت کی مختلف پوسٹوں پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :