آپ سے کیا پردہ

جمعہ 20 ستمبر 2019

Safder Ali Hydri

صفدر علی حیدری

ہم باتوں کے عادی ہیں۔ انتہا کے بڑبولے۔ وہ جو ارباب اختیار ہیں وہ عوام سے بھی کچھ زیادہ گفتار کے غازی۔ جبھی تو بات بے بات یوٹرن لینا ان کا مشغلہ ٹھہرا۔ سوچے بنا بولیں تو ایسا ہونا فطری بات ہے۔
بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہو گی؟
بات سے مکرنے میں دیر کتنی لگتی ہے 
کیسا سانحہ ہے کہ ہمارے ہاں پردے کو سزا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق کے چیمپئن گز گز بھر لمبی زبانیں نکال نکال کر اس ظلم پر سراپا احتجاج ہیں کہ کے پی کے میں سکول میں زیر تعلیم طالبات کو پردے کا پابند کیوں کیا جا رہا ہے۔ یقینا ان دیسی لبرلز کے مفادات پر گہری چوٹ پڑی ہے جو سیدھی بے چاروں کے دل پر پڑی ہے۔اور شاید پیٹ پر بھی اس دن پورے پاکستان کا ایک ہی مسئلہ تھا۔ ایک ہی ایشو۔

(جاری ہے)

ایک بڑے بکاؤ چینل نے تو اخیر ہی کر ڈالی۔

ستم دیکھئے کہ پورے پینل میں ایک بھی بڑبولا ایسا نہ تھا جو پردے کے حق میں بولتا۔ جو تھے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ پھر اسی دن دیکھتے ہی دیکھتے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے اور ریاست مدینہ کی ایک صوبائی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ صوبہ بھی ایسا کہ جہاں مذہب کی بنیادیں زیادہ گہری بتائی جاتی ہیں۔ جی دار حکومت کو محبی فضل الرحمن سے بھی ڈر نہیں لگا جو کم و بیش ایک عشرے سے اس جماعت کے سربراہ پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام دھرتا رہا ہے۔

یقینا اس فیصلے سے مولانا کے ہاتھ مضبوط ہوں گی۔ لیکن مغربی دنیا تو راضی رہے گی کہ جسے طالبان خان کہتے تھے اس نے نیا یوٹرن لے لیا ہے۔ اب تو مغربی دنیا کو بھی کپتان کے حوالے سے یوٹرن لینے کا وقت آ گیا ہے۔اب تو وہ انہیں اپنے اپنے سے دکھائی پڑتے ہوں گے۔ ویسے آپس کی بات ہے کیا عمرانی حکومت کو یاد ہے کہ انہوں نے پرانے پاکستان کی جگہ ایک نیا پاکستان بنانا تھا جس کا رول ماڈل ریاست مدینہ تھی۔

اگر یاد ہے تو یہ بات کہاں رہ گئی؟۔ بس رات گئی بات گئی؟ کیا ریاست مدینہ میں پردہ ایک جرم بنا کر پیش کیا جائے گاگا؟
انسانی حقوق کی بات کرنے والی مغربی دنیا کے باٹ بھی شاید لینے کے اور ہیں دینے کے۔ مجھے لگتا ہے وہ جن انسانوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں ان میں مسلمان سرے سے شامل ہیں ہی نہیں۔ کشمیر کی حالیہ صورت حال ہی پر نظر کر لیں۔

پونے دو ماہ سے بھارت کی بد معاشی پر کوئی آواز بلند ہوئی؟ اگر کوئی ڈری سہمی بلند ہوئی بھی تو اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ 
خیر عمرانی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ پاکستان کا سافٹ اور بہتر امیج یورپی اقوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ چاہتی ہے کہ پاکستانی قوم سر اٹھا کر جی سکے۔ قوم کو زبردستی کی یہ روشن خیالی مبارک ہو۔ ہاں البتہ دیسی لبرلز کی اطلاع کے عرض ہے کہ ان کی کاوشیں خاک میں مل گئی ہیں۔

کل جا کر سروے کر لیں آپ کو لاکھوں لڑکیاں پورے ملک میں حجاب لے کر سکول جاتے ہوئے نظر آئیں گی۔ انہیں اس کے لیے نہ سرکاری چھتری درکار ہے نہ ان دیسی لبرلز کے منافقانہ طرز فکر کی کالی روشنی جانے کیوں مجھے رہ رہ کر اکبر الہ آبادی یاد اتے ہیں کہ جن کے لحد میں اترتے ہی غیرت قومی بھی لحد میں ان کے ساتھ اتر گئی ۔
ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﻞ ﭼﻨﺪ ﺑﯿﺒﯿﺎﮞ ! !
ﺍﮐﺒﺮ ﺯﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮﺕ ﻗﻮﻣﯽ ﺳﮯ ﮔﮍﮪ ﮔﯿﺎ
ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ؟
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻘﻞ ﭘﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :