حاجی خلیل احمد لدھیانوی رحمة اللہ علیہ

جمعہ 22 ستمبر 2017

Sahibzada Tariq Mehmood

صاحبزادہ طارق محمود

کس کی بنی ہے اس عالم ناپائیدار میں
حاجی خلیل احمد لدھیانوی رحمة اللہ علیہ مرنجاں مرنج، وضع دار، مہمان نواز، اعلیٰ ذوق کے بڑے دھان پان والے انسان تھے۔ مرحوم ظرافت و لطافت کا پیکر تھے۔ بذلہ سنجی، حاضر دِماغی، لطیفہ سازی اور برجستہ گوئی میں ان کا جواب نہ تھا جس محفل میں ہوتے جانِ محفل بن جاتے۔ اب جبکہ وہ بہت دور جاچکے ہیں اپنی یادوں اور باتوں کے ایسے اَنمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں کہ ان کا حلقہ یاراں انہیں کبھی فراموش نہیں کرسکے گا۔

عالم تصورات میں حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ یہ کہتے محسوس ہوتے ہیں:
خدا کی قسم بہت آیا کروں گا
کہو گے کہ وہ جانِ محفل کہاں ہے
حاجی خلیل احمد لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کی ذات کی پہچان پیغامِ حج سے عبارت تھی۔

(جاری ہے)

ڈگلس پورہ فیصل آباد میں بہت مدت پہلے انہوں نے ادارہ ’پیغامِ حج‘ قائم کیا۔ اس زمانہ میں حاجی خلیل احمد لدھیانوی کا عروج بھی قابل دید تھا۔

حاجیوں کی خدمت اور رہنمائی زندگی بھر ان کا مشن رہا۔ حاجی خلیل احمد لدھیانوی نے زندگی میں تقریباً 40 سے زاید بار حج کرنے کی سعادت حاصل کی۔ حرمین شریفین کی زیارت کا یہ غیر معمولی اعزاز ان کی بخشش کے لیے کافی ہے۔ ایک بار حاجی صاحب حج پر جانا چاہتے تھے دوسری طرف کوئی فنی رکاوٹ تھی جس کی بناء پر ان کا حجازِ مقدس کا سفر مشکوک نظر آرہا تھا۔

راقم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ”حاجی کیا بنے گا…؟“
اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے ”میاں! اساں رب نال برآں کے رکھی اے۔ حج تے ضرور جاواں گا۔“ (یعنی ہم نے رب کے ساتھ بنا کر رکھی ہے۔ حج پر ضرور جاؤں گا۔)
اور یہی ہوا حاجی صاحب آخری روز حج پر روانہ ہوگئے واپس آئے تو راقم سے کہنے لگے ” دعا کر آیا ہوں کہ اے اللہ جب تک میرے جسم میں جان ہے اپنے دَر پر آنے سے نہ روکنا۔

کیوں کہ تیرے سوا کوئی دَر نہیں۔“
محفل آرائی حاجی خلیل احمد لدھیانوی کا محبوب مشغلہ تھا۔ ظرافت و لطافت ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تھی۔ جہاں ہوتے، جب چاہتے لطائف کا مینا بازار سجا دیتے۔
انہیں اردو، پنجابی کے سینکڑوں اشعار اَزبر تھے۔ ترنم بلا ترنم انہیں خطیبوں کی نقل میں کمال کا ملکہ حاصل تھا۔ حاجی صاحب خود عالم یا خطیب نہ تھے لیکن علماء کا علم اور خطباء کی خطابت ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا عبداللہ درخواستی  اور بالخصوص مولانا محمد علی جالندھری کی تقاریر کے شہ پارے ان کے ہاں محفوظ تھے۔ کبھی کبھار سناتے تو رنگ باندھ دیتے۔ راقم نے کئی بار سوچا کہ ان نوادرات کو ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ یا تحریر کی صورت میں محفوظ کرلوں لیکن افسوس کہ اپنی بے ڈھنگی مصروفیات کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔

راقم نے ایک دفعہ مناسک حج کے حوالہ سے مسئلہ پوچھا۔ حج سے انہیں عشق تھا۔ حج ہی تو مرحوم کی پسندیدہ اور محبوب عبادت تھی۔ مسئلہ پوچھنا تھا کہ حاجی صاحب پھڑک اُٹھے۔ پھر حضرت مدنی  کے حوالہ سے مناسکِ حج کے فضائل و مناقب کے ساتھ ساتھ ان کی شرعی حیثیت پر ایسا فصیح و بلیغ سیر حاصل تبصرہ کیا کہ جمعة المبارک کے لیے تقریر تیار ہوگئی۔
حاجی خلیل احمد لدھیانوی نے دینی ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں۔

علمائے لدھیانہ سے تعلق خاطر تھا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو دیکھا تو اُنہی کے ہوکر رہ گئے۔ شاہ جی کی وجہ سے احرار میں آئے اور پھر احرار ان کے خون میں رَچ بس گئی۔ حاجی صاحب نے احرار کی روایات کو مرتے دم تک برقرار رکھا۔ احرار سے وابستگی کی وجہ سے احراری رہنماؤں سے تعلقات ایک فطری اَمر تھا۔ لیکن جس شخصیت نے انہیں اپنا گرویدہ بنایا وہ امیر شریعت سید عطاء شاہ بخاری تھے۔

میں نے بارہا دیکھا کہ شاہ جی کا ذکر آتا تو حاجی صاحب کا چہرہ اَشک بار ہوجاتا۔ ماضی کو یاد کرکے آہ کھینچتے، حال پر افسوس اور مستقبل کے لیے خدا حافظ کہہ کر چپ ہوجاتے۔
حاجی خلیل احمد لدھیانوی کی آنکھوں نے جن سحر آفرین شخصیات کو دیکھا اور ان سے فیضِ صحبت حاصل کیا وہ اپنے قول و فعل اور کردار کی ایسی بلندیوں پر تھیں کہ ان کے بعد کوئی کیسے جچ سکتا تھا؟
حاجی خلیل احمد لدھیانوینے ایک مرتبہ ماضی اور حال کے علماء کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے خوب کہا تھا ”عطاء شاہ بخاری اور دوسرے اکابرین کے پیچھے پولیس پھرتی تھی۔

آج کل کے علماء کے آگے پولیس رہتی ہے۔“
حاجی خلیل احمد لدھیانوی کی محفل میں پرانے بزرگوں کی باتیں شنید کے قابل تھیں۔ اکابرین دیو بند سے انہیں عشق تھا۔کسی ایک کا ذکر آجاتا تو مرحوم ان کی یادوں اور باتوں کے دیوان سجا دیتے۔ مولانا محمد عبداللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود اور خاص طور پر مولانا محمد علی جالندھری سے ان کے نیاز مندانہ تعلقات تھے اور یہ بزرگ جب فیصل آباد آتے ان کے غریب خانہ کو رونق بخشتے۔


حاجی خلیل احمد لدھیانوینے ایک مرتبہ محفل میں مولانا محمد علی جالندھری کی سادگی اور اخلاص کا واقعہ سنایا کہ کھرڑیانوالہ میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ مولانا محمد علی جالندھری اچانک رات کو میرے ہاں پہنچے۔ انہوں نے ململ کا معمولی کرتہ اور تہبند پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا تھا۔ فرمانے لگے کہ گھر میں جو کچھ ہے جلدی سے کھلادو اور میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

حاجی صاحب نے بتایا کہ وقت کم تھا بس پر جاتے تو پہنچنا مشکل تھا۔ میں نے کھرڑیانوالہ کے لیے رکشا کرایہ پر حاصل کیا اور چل دیے۔
حاجی خلیل احمد لدھیانوی نے دینی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مرحوم نے 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں جگر داروں کا ثبوت دیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ تحریک میں حصہ لیا۔جھنگ سے گرفتار ہوئے اور بورسٹل جیل لاہور میں قید کاٹی۔

1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھی حاجی صاحب نے حصہ لیا اور بم قیدی کی حیثیت سے خاصی شہرت پائی۔ حاجی صاحب فیصل آباد سے نکلنے والے جلوسوں میں شامل ہوتے۔ اس تحریک میں حاجی صاحب کو 16اپریل کی شب اور امانت ملک کو 8 مئی کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر بم بنانے کا الزام تھا۔ ملک صاحب کے دیگر چھ ساتھیوں کو بھی پولیس نے اس کیس میں دھر لیا۔امانت ملک اور ان کے ساتھیوں پر سی آئی اے میں جسمانی تشدد کیا گیا پھر انہیں شاہی قلعہ لاہور منتقل کردیا گیا۔

حاجی خلیل احمد لدھیانوی کو مختلف تھانوں میں مہمان رکھا گیا۔ پھر سی آئی اے اسٹاف میں رکھ کر پولیس نے ان پر تشدد کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔
حاجی خلیل احمد لدھیانوی کو عقیدہٴ ختم نبوت سے عشق تھا۔ اسی وجہ سے وہ ختم نبوت کے ہر پروگرام میں شرکت فرماتے۔ پبلک پارک چنیوٹ میں ہر سال ختم نبوت کانفرنس میں اہتمام سے شریک ہوتے۔

جب چنیوٹ کانفرنس کو چناب نگر منتقل کیا گیا تو مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ حاجی خلیل احمد لدھیانوی نے فیصل آباد سے پیدل قافلہ لے کر چناب نگر جانے کا اعلان کردیا۔ ان کے ہمراہ بیسیویں افراد پیدل چل دیے۔ حاجی صاحب نے بڑھاپے کے باوجود پیدل سفر جاری رکھا۔ حاجی صاحب اپنے رفقاء سمیت جوں ہی مسلم کالونی جلسہ گاہ پہنچے فضاء نعرہٴ تکبیر اللہ اکبر، تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھی۔

جلسہ گاہ میں موجود سامعین نے کھڑے ہوکر حاجی صاحب کا استقبال کیا۔ حضرت الامیر مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم جو اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے انہوں نے حاجی صاحب کا ماتا چوما اور دیر تک دعائیں دیتے رہے۔
وفات سے ایک ماہ قبل راقم مولانا اللہ وسایا کے ہمراہ حاضر ہوا تو حاجی صاحب نے حسبِ معمول آب ِ زم زم سے تواضع کی۔ فرمایا کرتے تھے میرے سٹاک میں 1947ء سے 1999ء تک ہر سال کا آبِ زم زم موجود ہے۔

کافی دیر تک باتیں ہوتی ر ہیں ہم اُٹھے تو کہنے لگے ”دعا کرنا اللہ تعالیٰ میرا خاتمہ ایمان پر کرے۔“
میں نے معانقہ کیا تو محسوس ہوا جیسے ان کا جسم کہہ رہا ہو ”اب میری صحت تو اِک گرتی ہوئی دیوار ہے۔“
26اگست 2000کو اچانک اطلاع ملی کہ حاجی خلیل احمد لدھیانوی وفات پاگئے۔ بڑے قبرستان میں شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد نے ان کی وصیت کے مطابق جنازہ پڑھایا۔ نمازِ جنازہ سے قبل مولانا ضیاء القاسمی نے اپنے رفیق کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ محفلوں کشت وزعفران بنانے والا خوشگوار یادیں چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگیا جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آیا کرتا…!
بشکریہ..مطبوعہ ماہنامہ ’لولاک‘ملتان فروری۲۰۰۱ء

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :