کن وجوہات کی بنا پر وبا کے اس دور میں ہم اس نہج کو پہنچے؟

بدھ 28 اپریل 2021

Salman Khaliq Bajwa

سلمان خالق باجوہ

ہم ہر روز خبروں میں سنتے ہیں کہ کرونا وائرس سے پاکستان میں اتنے افراد انتقال کر گئے اور اتنے افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے چند دنوں سے مرنے والوں اور مثبت کیسسز کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں جہاں وائرس سے مرنے والوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر 3000 تک جا پہنچی ہے اور مثبت کیسسز کی شرح 3 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔


آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان یا انڈیا اس حالت تک پہنچے ہیں کہ اسپتالوں میں بستر بھر گئے ہیں، آکسیجن کی کمی ہو گئی ہے اور وینٹیلیٹرز نایاب ہو گئے ہیں؟ یقینناً ایسا ایک دن یا ایک ماہ میں نہیں ہوا۔
جنوبی ایشیاء مجموعی طور پر ترقی پذیر مملک کے خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔

(جاری ہے)

تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ قانون پر کم عملدرآمد کرتے ہیں، سازشی تھیوریوں میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کرونا وائرس کی وبا کا آغاز ہوا تو ہماری پاکستانی اور بھارتی عوام کی اکثریت نے پہلے تو اس وائرس کے ہونے سے ہی صاف انکار کر دیا۔ کچھ لوگ اس میں مزید آگے آئے اور انہوں اس تھیوری کو پروان چڑھایا کہ اس وائرس میں مبتلا لوگوں کو اسپتالوں میں مار دیا جاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت اور ترقی یافتہ مملک اس کیلئے 5 لاکھ فی مریض دیتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے وبا کی علامات کو ہی عام بیماری قرار دیا۔
باوجود اس کے کہ بار بار حکومتوں کی جانب سے اعلان کیا جاتا رہا کہ عوام ماسک پہنیں، بار بار ہاتھ دھوئیں اور سماجی فاصلہ بر قرار رکھیں۔ مگر ان دونوں ممالک کی عوام کی اکثریت نے ان ہدایات کو نظر انداز کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں یعنی پچھلے سال دونوں مملک کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن لگایا اور انتہائی سختی سے ایس او پیز پر عمل کروایا جس کی وجہ سے وبا کا دائرہ کار محدود رہا۔

وقت کیساتھ ساتھ اور کچھ معاشی مجبوریاں آڑھے ہاتھوں آئیں اور دونوں ممالک نے لاک ڈاؤن ہٹا دیا۔ دونوں جانب عوام میں ایس او پیز پر عمل کے حوالے سے اعلانات تو کئے جاتے رہے مگر حکومتی کی جانب سے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد ختم کروا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بھی واپس اپنی روٹین سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے اور ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔


نہلے پہ دہلا دونوں مملک میں سماجی تقریبات، سیاسی سرگرمیاں بھی اپنے معمول پر آ گئیں۔ سفری پابندیاں نہ ہونے کے باعث بیرون ممالک سے لوگ بھی آتے رہے جن کی اسکریننگ یا قرنطنیہ کا نظام نہ ہونے کے باعث وائرس کی مختلف اقسام بھی یہاں "امپورٹ" ہو کر آنے لگیں۔ اور یوں کرتے کرتے یہ ایک بم بنا جو انڈیا میں پھٹ گیا اور پاکستان میں پھٹنے کے قریب ہے۔


اب ہوا یہ کہ دونوں ممالک کی عوام کی اکثریت غریب ہے لہذا ان کا رخ سرکاری اسپتالوں کیطرف بڑھا۔ سرکاری اسپتال اس ساری صورتحال کیلئے تیار نہ تھے اور اگر تیار تھے بھی تو ایک حد تک۔ لہذا صحت کا نظام بری طرح سے متاثر ہوا اور سسٹم بلکل بیٹھ گیا۔ اور وہ ہوا جو اب ہم انڈیا میں دیکھ رہے ہیں اور میرے منہ میں خاک آنے والے دنوں میں شاید پاکستان میں ہوتا ہوا دیکھیں۔


لہذا دونوں مملک کی حکومتوں سے گزارش ہے کہ عوام کی فلاح کیلئے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے جس میں مکمل لاک ڈاؤن کا آپشن بھی سر فہرست ہونا چاہئے۔ معیشت دوبارہ بھی کھڑی ہو سکتی ہے، پیسے دوبارہ بھی کمائے جا سکتے ہیں مگر ایک دفعہ جان گئی سو گئی۔ اسے واپس نہیں لایا جا سکے گا۔
جب کہ عوام سے گزارش ہے کہ وہ ماسک پہنیں، اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں، بھیڑ اور رش نہ کریں، غیر ضروری طوع پر باہر نکلنے سے گریز کریں اور جو افراد 60 سال یا اس سے زائد ہیں وہ اپنی ویکسینیشن کروائیں۔
اگر ہم صرف ان چند ہدایات پر عمل کر لیں تو اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں حالات کنٹرول سے بھی باہر جا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :