"میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا"

منگل 29 دسمبر 2020

Sarmad Ayub

سرمد ایوب

1956 کا آئین بنا تو سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے۔ سکندر مرزا ڈیموکریٹک سسٹم والی حکومتوں میں بیوروکریٹ رہنے کے باوجود بادشاہت کے بہت بڑے مداح تھے اور ان کے خیال میں ڈیموکریسی پاکستان جیسے ممالک کیلئے ایک فضول چیز تھی۔ محض 2 سال صدر رہنے کے بعد 1958 میں انہوں نے اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لاء کی دعوت دے دی۔

وہ اسمبلیاں توڑ کر ایک ایسی حکومت بنانا چاہتے تھے جس میں صدر کے پاس بادشاہ جتنے اختیارات ہوں۔
ایوب خان نے مارشل لاء کے دو دن بعد ہی سکندر مرزا کو جلا وطن کر دیا اور خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انہوں نے ملک میں ریفرمڈم کروایا جس میں پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ کو ایوب خان پر بطورِ صدر اعتبار ہے؟‘‘۔

(جاری ہے)

ایوب خان کو %95 ووٹ ملے اور وہ صدر منتخب ہو گئے۔


انہوں نے ایبڈو کے تحت تقریباً سبھی سیاستدانوں کو سیاست سے بین کر دیا یا ان کے خلاف کرپشن وغیرہ کے چارجز کے تحت مقدمے چلائے گئے۔ نعرہ لگایا گیا کہ سبھی سیاستدان کرپٹ ہیں۔
ملک چلانے کیلئے دستور کی ضرورت تو رہتی ہی ہے، سو انہوں نے چیف جسٹس کو آئین بنانے کا کام دیا۔ ان کا ڈرافٹ انہیں ملا لیکن پسند نہ آیا۔ ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمے یہ کام تھا کہ آئین کو ویسا بنایا جائے جیسا وہ چاہتے تھے۔

لہٰذا، 1962 کا آئین ایوب خان کا من پسند آئین تھا اور اس کے خلاف سبھی با ضمیر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جن میں سب سے بلند آواز حبیب جالب کی تھی۔
جی ہاں! حبیب جالب نے اپنی نظم دستور 1962 کے آئین کی مذمت ہی میں لکھی تھی۔ یہ نظم آپ کو سناتے ہیں:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :