بچپن کو صرف سوچا جا سکتا ہے

جمعرات 6 نومبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

سچ کہا تھا لوگوں نے کہ بچپن کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا چلا جاتا ہے بچپن جوانی اور جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو ہی جاتا ہے اور ان لمحات اور وقت کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جب بچے تھے تو جوان بننے کا بھوت سر پر چڑھا ہوا تھا۔ گزشتہ روز ہی الہ دین پارک کراچی جانے کا ارادہ ہوا۔ تو ساتھ میں ایک دوست بھی ساتھ تھا۔ بس اچانک بچپن کی کچھ یادیں اسی جانب لے کر گئیں جہاں کبھی ہم چڑیا گھر دیکھنے جاتے تھے۔

الہ دین پارک پہنچے تو بڑا ہی خابصورت ماحول پایا جہاں فیملیز کی بڑی تعداد الہ دین پارک کے اندر داخل ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ جھولے لگے ہوئے تھے جن پر بچے جھولا جھل رہا تھا۔ جہاں کبھی ہم بھی جھولا کرتے تھے۔ جہاں ہنسی تھی خوشی تھا نہ کسی چیز کا فکر نہ کسی چیز کی پریشانی۔

(جاری ہے)

بس تھا وقت بڑا سہانا۔ جتنا بھی بچپن کے دنوں کو یاد کرتا تھا لیکن بچپن کے حدود کے اندر داخل ہونا میرے لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ میں جب بھی عمر کے اس حد کو پہنچنے کی کوشش کرتا تو مجھے میرا حال وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا جہاں میں حال کی پریشانیوں سے نجات دہندہ ہو کر اس خوابوں کی سرزمین کو چھو لوں جہاں میں بھی کبھی دنیا کی غموں سے بے نیاز تھا نہ کمانے کا فکر۔

نہ ہی بڑا بننے کا خیال۔ بس کبھی ہوتا تو چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنی ضد کو منوانے کا طاقت۔ جہاں کبھی میرے رونے کی آواز میرے بڑوں کے دل کو یکدم پگلانے کا کام کیا کرتا تھا لیکن آج میں اس اسٹیج کو پہنچ چکا ہوں جہاں میں دل کو آنسو سے بھگو تو سکتا ہوں مگر اپنے آنکھوں میں آنسو لانا بھی میرے اختیار سے نکل چکا ہے کیونکہ آنکھوں میں آنسو لانے والے کو دنیا بزدل سمجھتی ہے اور میں نہیں چاہتا دنیا یہ لقب میرے ساتھ منسوب کر لے۔

اور دنیا والے حال دل سے نا آشنا ہیں اور وہ آپکو آپکے ظاہری شکل و صورت سے ہی پہچان سکتی ہے کیونکہ دنیا والوں کے پاس دل کو پیمانے کے لئے وہ آنکھیں موجود نہیں جو اسکی پیمائش کر سکیں بس دل آج پھر سے ان لمحات کو دیکھ کر پھر اسی بچپن کا طلبگار ہو گیا ہے جہاں کبھی وہ چھوٹی چیزوں پر خوش ہوا کرتا تھا لیکن اب بڑی سے بڑی چیزیں حاصل کرکے بھی دل کو تسکین نہیں ملتی۔

پارک کے اندر لگے اسٹال پر نظر پڑی جہاں بچہ کھلونا حاصل کرنے کی ضد کر رہا تھا۔ اور باپ بھی بچے کو جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک کھلونا بچے کے ہاتھ میں تھما دیا۔ بچہ اس چھوٹی سی پیشکش پر اتنا خوش ہوا کہ اسکے چہرے کی مسکراہٹ مجھ پر آسمان سے بارش برسانے کے مترادف ثابت ہوا۔ چھوٹے سے تالاب میں لوگوں کو کشتی چلاتے ہوئے دیکھا تو مجھے شاعر کا وہ مصرعہ یاد آگیا کہ لوٹا دو مجھ کو وہ کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی۔

کشتیوں میں سوار خواتین اور مرد حضرات کو دیکھا جنکے گود میں بچے یہ لمحات دیکھ کر خوشی سے جھوم رہے تھے لیکن پاپا اور ممی دونوں خاموشی بیٹھے صرف بچوں کی خوشیوں کے نظارے کر رہے تھے لیکن وہ اپنے اردگرد کی دنیا اور اپنے سرگرمی سے لاعلم خاموش سمندر کے مانند اپنے دل میں خواہشوں کی سمندر سجائے ان لمحات کو محسوس کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کر رہے تھے۔

اچانک میرے دوست نے میرا بازو پکڑ کر مجھے کسی جھولے پر بٹھا دیا یہ الیکٹرونک جھولا تھا اسکے چلتے ہی مجھے گھبراہٹ محسوس ہونے لگے۔ جبکہ سامنے بیٹھے بچے بالکل بے نیاز بیٹھ کر کسی بھی پریشانی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ہنس رہے تھے اور خوشی سے چلا رہے تھے میں نے بہت کوشش کی کہ اپنی گھبراہٹ اپنے دوست پر واضح نہ ہونے دوں لیکن میرے دوست نے میرے چہرے کی کیفیت پڑھ لی تھی ۔

اور فوراً اسے روکنے کا اشارہ کر دیا ۔ وہاں سے ہوتے ہوئے ہم میجک شو دیکھنے گئے جو ہم نے طالبعلمی کے زمانے میں اسکول کی سطح پر یہ شو دیکھا تھا اور اس شو سے بھرپور لطف اٹھایا تھا لیکن آج میجک شو میں وہ مزہ نہیں تھا جو شاید مجھے بچپن میں اسے دیکھتے ہوئے ہوا تھا۔ سر کٹا انسان بھی دیکھا جسے دیکھ کر بچپن میں خوف محسوس ہوتا تھا لیکن اب اس سے تھوڑی بھی پریشانی محسوس نہیں ہوئی۔

ہم الہ دین پارک کے بہت سے حصوں میں چکر لگاتے رہے اور اپنے بچپن کی خوشیاں لوٹانے کا لمحہ ڈھونڈتے رہے لیکن ہمیں بچپن کا وہ لمحہ کہیں بھی دوبارہ اپنے پاس آنے کو موقع نہیں ملا جسکے کبھی ہم خواہاں ہوا کرتے تھے۔
بچپن زندگی کا اہم اور خوبصورت لمحہ ہوتا ہے جو لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ انسان چاہے جتنا بھی سوچے اسی لمحے کو اپنی زندگی میں لانے کی لیکن وہ آپکی سوچ میں دوبارہ نہیں آسکتاکیونکہ آپکا زہن جدید قسم کی سوچ مال و دولت کمانے کا چکر بڑا انسان بننے کی پہنچ ، ایک اعلیٰ پایہ شخصیت کا مقام، جب بھی ہنسنا چاہو تو آپکی سوچ آپکو ہنسنے سے روک دے کہ بچوں جیسی حرکتیں آپکو زیب نہیں دیتں جب آپ بڑی مصیبت یا پریشانی میں گرفتار ہو تو رونا چاہو تو اس ڈر سے نہ روپاوٴں کہ دنیا بزدل کہے گی۔

بس میں ہم معاشرتی بندھنوں میں بندھے ہوئے انسان ہیں۔ درحقیقت بچپن کا زمانہ انسانی زندگی کا بہت ہی خوبصورت ایام ہوتے ہیں جو کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے بلکہ انہیں صرف سوچا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :