
قتل یا خود کشی
ہفتہ 3 جنوری 2015

شبیر رخشانی
(جاری ہے)
دنیا میں بے شمار واقعات ہوتے ہیں لیکن بہت سے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان کے زہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں انہی واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا جسکے منظر 17 سال گزر جانے کے باوجود بھی آج میرے زہن میں نقش ہے اور وہ مناظر میں آج بھی بھلا نہیں پایا۔ گو کہ اس وقت میری عمر 13برس تھی۔ اس وقت سے لیکر آج تک میرے زہن میں یہ سوال گردش کرتی رہتی ہے کہ آیا بڑی بہن کی موت ایک قتل تھی یا خود کشی۔۔ لیکن آج تک اسکا جواب مجھے نہ مل سکا۔ اور نہ ہی مل سکے گا کیونکہ اسکی سب سے بڑی وجہ جو اکثر ہمارے معاشرے کی جانب سے خاموشی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے کہ جو واقعہ ہونا تھا ہو گیا اب تبصرہ کرنے کا کیا فائدہ۔۔آیا اس عورت کو اقدام خودکشی پر اکسانے کے وجوہات یہ نہیں تھے کہ ایک ماں نے پورے مجمع کے سامنے جو رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت اپنایا جب وہ اپنی بہن کے لاش کے قریب بیٹھی رو رہی تھی۔۔ یا اس معاشرے سے جڑے وہاں موجود انسانوں کا جو اس وقت اسے بے قصور قرار دیتے اور اسکا بچاوٴ کرتے جب اس وقت اس عورت کی نگاہیں انصاف طلب کر رہی تھیں۔ جو اپنی بے قصوری ثابت کرنے کے لئے وہاں موجود ہر فرد کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی اسے بے قصور قرار دے اور دو لفظ انصاف کے اسکے حق میں بول دے۔۔ لیکن اسے ہر نظر میں اپنی تصویر ایک مجرم کی نظر آرہی تھی۔جسکا سہارا لے کر اپنی احساس ندامت اور سوسائٹی کے سوالوں سے آزاد کرنے کے لئے ایک ہی راستہ اختیار کیا وہ تھا خودکشی کا۔۔ گو کہ ہمارے معاشرتی انسان اسے بچانے کے لئے اسے بے قصور قرار دینے کے لئے دو الفاظ بول دیتے لیکن سب نے خاموش چہروں کے ساتھ اس عورت کو مجرم قرار دینے کے لئے ماں کے الزامات کی تائید کی جس نے نہ صرف اسے خودکشی پر آمادہ کیا بلکہ گاوٴں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا۔
شاید میری سوچ غلط ہو اسلئے میرے زہن میں آج بھی سوال اٹھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جس میں ہمارے سوسائٹی اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ اس میں ضرور ملوث ہے۔ ہمارے معاشرے میں اداروں اور شرفا کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے معاشرے کو درست کرنے کا بھیڑا اٹھایا ہے۔ لیکن ایسے واقعات تواتر کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں کیوں نہ ایسے واقعات کی کیس اسٹڈی بنا کر معاشرے میں مزید اس قسم کے اقدامات اٹھانے والوں کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے معاملات پر نہ انکی جانب سے بحث و مباحثہ سامنے لایا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے بلکہ اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر اسے بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسکے اثرات آنے والی نسلوں پر نہ پڑیں لیکن پھر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کا جنم دوبارہ ہو ہی جاتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شبیر رخشانی کے کالمز
-
مسیحا کا قتل
منگل 22 دسمبر 2015
-
قتل یا خود کشی
ہفتہ 3 جنوری 2015
-
روزگار کے اشتہارات اور بے روزگار نوجوان
بدھ 31 دسمبر 2014
-
تعلیم یا بزنس
پیر 22 دسمبر 2014
-
جب ساون برسنے لگا
ہفتہ 22 نومبر 2014
-
سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت
منگل 18 نومبر 2014
-
بچپن کو صرف سوچا جا سکتا ہے
جمعرات 6 نومبر 2014
-
ذرا ہم انسان بھی
ہفتہ 25 اکتوبر 2014
شبیر رخشانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.