خواتین و حضرات ( قسط 2)

پیر 20 مئی 2019

Shahzada Raza

شہزادہ رضا

کالم نگار: - شہزادہ رضا
خواتین مردو ں کے ساتھ برابری کا دعوی کر تی ہیں، اور وہ کافی حد تک اس دعوی میں حق بجانب بھی ہیں ۔ ہیوی ڈیوٹی گاڑیوں سے لیکر فائٹر جیٹ تک تو اُڑا لیتی ہیں جبکہ ہم مرد اِس دعوی میں بہت پیچھے ہیں۔ مرد چاہے جتنا بھی تیس مار خان بن لے ، وہ دو کام نہیں کر سکتا ، ،
مرد نہ تو ماں بن کے دکھا سکتا ہے، اور نہ ہی بائیک کے پیچھے دونو ں پیر ایک طرف کر کے بچے اور بیگ سمیت مزے سے بیٹھ کر پور شہر گھوم لینے کے فن کا مظاہر ہ کر سکتا ہے۔

!!
جبھی تو آج تک جمناسٹک کے فن پر خواتین کی اجارہ داری ہی دیکھی ہے، خواتین محبت کے معاملے میں بالکل حساس نہیں ہوتیں، ایویں ہی مشہور کر رکھا ہے کہ یہ اپنی پہلی محبت نہیں بھولتیں، مخلص ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ، ایسا بالکل نہیں ہے، کسی بھی بریک اپ کے بعد زیادہ سے زیادہ یہ چالیس منٹ حالتِ سوگ میں رہتی ہیں او ر پھر بھلی چنگی ۔

(جاری ہے)

!!
جبکہ ہم مرد چھ سال کی عمر سے شروع ہونے والی محبتوں سے لیکر مرتے دم تک زندگی میں آنے والی خواتین سے ٹوٹ کر محبت کر تے ہیں،
کسی کو بھی احساس نہیں ہونے دیتے کہ ہم اُس سے زیادہ کسی اور کو چاہتے ہیں۔

!!
ہم ہر عورت سے وفادار رہتے ہیں تاآنکہ اُس کی شادی ہوجائے۔!!
ہم ذاتی طور پر اِس معاملے میں قدرے خوش قسمت رہے، بھلا ہو بڑے بھائی کا ، جن کی نصیحت تھی کہ” بیٹا عورت اور بس کے چُھوٹ جانے کا غم نہیں کرنا..............دوسری آجائے گی “
خُدا سلامت رہے میرے دونوں بڑے بھائیوں کو جنہوں نے ہمیشہ میرے ہر غیر اخلاقی کام میں میری بھر پور اخلاقی مدد کی ۔

!!
خواتین کو اللہ نے فطرتاََ ہی نہائیت نفیس، باوقار اور حیا دار بنایا ہے، بات چیت کے دوران خواتین اپنے گر د ماحول سے پوری طرح آگاہ رہتی ہیں ، نپی تُلی گفتگو کر تی ہیں ، کبھی کبھار کچھ بناوٹ بھی سرزد ہو جاتی ہے ، دوران گفتگو انگلش کے الفاظ بھی مکِس کر تی رہتی ہیں اور بلا
ضرورت صیغہ جمع استعمال کرتی رہتی ہیں،
”بھائی ذرا میرے HUSBANDSکوتو بھلادین پلیز“
جیسا فقرہ سننے کے بعد میں پوری تقریب کے دوران اِس سوچ میں غلطاں رہا کہ شاید ہمارے سیاسی علماء نے اجتہاد کرکے خواتین کے لیے بھی ایسی کوئی سہولت نکال لی ہے۔

!!
خواتین محفل میں سمٹ سمٹا کر بیٹھتی ہیں ، جبکہ صوفے پر بر اجمان ہونے کے بعد ہر طرف ہمارے اعضاء بِکھرے پڑے ہوتے ہیں۔
مردوں کی نسبت خواتین حد درجہ نفاست پسند واقع ہوتی ہیں،
یقین مانےئے جیسے مشتاق یوسفی نے اسلامی ممالک میں کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا، ایسے ہی میں نے بھی آدمی مغربی دنیا اور خلیجی  ممالک گھوم لینے کے باوجود کسی خاتون کو نہ تو سڑک کنارے کھڑے ہو کر گنڈیریاں چوستے دیکھا اور نہ ہی دوسروں کے سامنے اپنی ناک کی بھَل صفائی کی مہم جارے رکھے پایا۔

!!
و احیاتی کا یہ ہنر ہم حضرات کی میراث ہی ٹھہری !!!
بعض وفعہ بہت وضع دار قِسم کے مردوں کو انگلیوں کے اِس فن میں طاق پایا۔۔ کچھ ظالم تو باقاعدہ اپنی فتوحات کے اِس مالِ غنیمت کو مَسل مَسل کر کوالٹی چیک کر تے ہیں،
والد محترم کو ایسا شغل رکھنے والے حضرات سے شدید نفرت تھی، وہ باقاعدہ ایسے لوگوں کو ڈانٹ دیتے۔۔ اُ ن کا یقین واثق تھا کہ ایسے ”بدکردار“ لوگوں کو موقع پر تلف کردینا چاہیے کیونکہ اِ ن کی اصلاح ممکن نہیں۔

۔۔!!
خواتین کی چال میں بھی متانت اور خوبصورتی پائی جاتی ہے ، ہرنی جیسی چال کا استعارہ خواتین کے لیے ہی مخصوص ہے، کبھی نہیں سنا کہ فلاں مر د ہرن جیسا چلتا ہے ، البتہ ہماری چال ڈھال اور چلن کو گدھے اور سانڈھ سے تشبیہ ضرور دی جاتی ہے،
بظاہر انتہائی معقو ل اور مدبر نظر آنے والا مر د بھی چلتے چلتے چند سکینڈ ز کے لیے اپنے پیروں کو فٹ پاتھ کی ٹائلوں کے ڈیزائن کے مطابق آڑھا ترچھا ضرور کرتا ہے۔


ہم حضرات کھاتے بھی ڈٹ کر ہیں۔ ڈکار دراصل معدے کی چیخیں ہوتے ہیں مگر ہم ان پہ دھیان دیے بغیر معدے پر ظلم و ستم جاری رکھتے ہیں،
نتیجہتہََ ہماری باد ِ شکم کے اَ ن گائیڈڈ میزائل فضا سے فضا میں مار کر تے فضائی آلودگی اور اعصابی تباھی کا باعث بنتے رہتے ہیں سائنس کے مطابق خواتین کے معدے کا سائز بھی مردوں کے مقابلے میں 8سے 10فی صد کم ہو تا ہے۔


لہذا خواتین سے یہ خطا کم ہی سرزد ہوتی دیکھی۔۔!!
پبلک پلیس پر خواتین ٹوائلٹ کے لےئے نہائیت ذمہ داری اور بُردباری سے اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں،مگر ہم حضرات کی بے چینی دیکھنے والی ہوتی ہے ، چند لمحے انتظار کے بعد ہی ہم متبادل جگہوں کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں ۔
پاکستان میں تو کہیں بھی مناسب سی آڑ دیکھ کر ہم مورچہ زن ہو جاتے ہیں(خُدا را کسی گاڑی کے ٹائرکی آڑ کبھی مت لیجئے، تاآنکہ آپکی ڈرائیور سے ذاتی و اقفیت نہ ہو)
خواتین قطعاََ ایڈونچر پسند نہیں ہو تیں ۔

۔ اِ ن کا زیادہ سے زیادہ ایڈونچر جھو لا جھولتے ہوئے چیخیں مارنا ہے۔۔! جبکہ ہم مرد حضرات پیدائشی پنگے باز ہوتے ہیں،
ہماری والد مرحوم کے ساتھ حددرجہ قربت تھی ، اُن کے ساتھ گزارے لمحوں میں سب سے زیادہ خوبصورت لمحے مرغابی کے شکار کے ہوا کرتے تھے۔
والد زبردست نشانہ باز تھے، فائر کرنے سے پہلے ہاتھ کے اشارے سے بتاتے کے اتنا سکور ہو گا ، یقین مانیں اُ ن کا اندازہ شاید ہی غلط ثابت ہوتا ۔


ایک با ر فائر کر نے میں دیر ہو گئی ۔ہم فاصلے پر کھڑے دھڑکتے دِلوں منتظر رہے
خیر فائر ہوا اور چھ یا سات مر غابیاں ڈھیر ہو گئیں۔
پو چھا کہ فائر کر نے میں تامِل کیوں کیا ، تو بتایا کہ جونہی فائر کے لیے پو زیشن سنبھالی تو عین اپنے اوپر ایک بر ا سانپ کو پھن پھیلائے تیار پایا، چند لمحے سو چنے میں گزار دیے کہ سانپ کو اُڑایا جائے یا مر غابیوں کو شکار کیا جائے۔

قرعہ فائر مرغابیوں کے حق میں نکلا۔۔!
بھائی نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ پہلے سانپ کو مار دیتے ، والد گویا ہوئے
” بے وقوف انسان ، اگر سانپ ڈس لیتا تو FIRST AID BOXموجودتھا۔ تم لو گ بھی تھے ، بچت ہو جاتی مگر یہ MANDARINنامی روسی مرغابی ہے، جو بہت نایاب ہے ، یہ دوبارہ شاید ملنانصیب نہ ہوتی ۔۔!
ذرا آگے چلے تو دریا کنارےAVOCETنامی پرندوں کا غول مل گیا جنہیں مقامی زبان میں چائیا کہتے ہیں۔

والد کی بندوق گرجی اور کچھ پرندے زمین بوس ہو گئے۔ ایک پرندہ زخمی حالت میں اُڑتا ہوا انڈین مگ 21کی طرح کچھ فاصلے پر موجود بارش کے پانی سے بھرے ایک گڑھے میں جاگرا ۔ میں نے آؤدیکھا نہ تاؤ پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ پرندہ تو جالیا مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لگا پانی میں ڈبکیاں کھانے، کیونکہ عمر عزیز محض سات برس تھی ، چا چا سلیم (سکواڈرن لیڈر سلیم حکیم) نے بالوں سے پکڑ کر باہر نکا لا۔

۔
بہادری کے اِس کا رنامے پر والد کی خوشی دیدنی تھی ۔ چاچا سلیم نے باقاعدہ نعرے لگائے۔ مجھے کا ندھے پر بٹھا کر ساڑھے چھ فٹ کے اُس فوجی نے بھنگڑہ ڈالا کہ میں نے شکاریوں کے خاندان کی لاج رکھ لی تھی ۔ مگر والدہ کا رد عمل بالکل برعکس تھا گھر پہنچتے ہی خبر ہونے پر میرے لیے گارڈ آف ڈِس آنر کا اہتمام کر تے ہوئے پورے 21جوتوں کی سلامی دی اور آئندہ مر غابی کے شکار پر والد کے ساتھ جانے پر پابندی لگادی۔

جِسے چند دِنوں کے بعد والد نےVETOکر دیا۔۔۔!!
خواتین WiFiکی طرح ہوتی ہیں ۔ وہ تمامAVAILABLE DEVICES کو دیکھنے کے بعد ایک سے کینکٹ ہو جاتی ہیں۔ جبکہ مرد حضرات بلُو ٹوتھ کی مانند ہوتے ہیں ۔ کسی خاتون کے قریب ہو تے ہی ہم کنیکٹ تو ہوجاتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ دوسری DEVICES کے لیے بھی SEARCHجاری رکھتے ہیں۔۔!!
سائنس کے مطابق خواتین کے جسم میں موجود  DLFACTORY BULB CELLکی تعداد مردوں کی مقابلے میں 43 فی صد زیادہ ہوتی ہے۔

چنانچہ اِن میں سو نگھنے کی حِس بھی قدرے تیز ہوتی ہے ، بچے کے پیمپر سے لیکر محبوب کی زندگی میں موجود دوسری خواتین کی خوشبو بھی بہت جلد محسوس کر لیتی ہیں،
خواتین شاپنگ کو عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وِنڈوشاپنگ کو نفلی عبادت کا درجہ دیتی ہیں۔۔۔!!
جبکہ ہم مر د شاپنگ کے اہداف طے کر کے گھر سے نکلتے ہیں اور دُکاندار سے چند روپے ڈِسکاؤنٹ کروا کے مغرور مُسکراہٹ لیے گھر واپس آتے ہیں ۔


یعنی دوہزار والا جُوتا جس کی قیمت 3500روپے ظاہر کی گئی ہو تی ہے۔
ہم 3200/-روپے میں لے آتے ہیں۔۔!!
ہم تمام مر د جوانی میں تقریباََ لو فر ہی واقع ہوتے ہیں،
ماں اور بیوی کی محبت ہمارے لیے اپنی ذات کے کچھ خوابیدہ پہلوؤں کی تسکین کا زریعہ تو ہو سکتی ہے، مگر یقین مانئے ہمیں مکمل انسا ن کا بچہ بنانے کا سارا اہتمام بیٹیوں کے ہاتھ میں ہو تا ہے۔

۔!!
جو ں جوں بیٹی بڑی ہو تی جاتی ہے توں توں ہمارے اندر کا ابلیس باقاعدہ سسکیاں لیتا سوئے جہنم روانہ ہو تا جاتا ہے ، اور ہم سُد ھرتے جاتے ہیں۔۔!!
خواتین بچپن سے ہی بیٹی کو دُلہن بنانے کے ارمان پالنا شروع کر دیتی ہیں ، جبکہ ہم بیٹی کے رُخصت ہونے تک اِس سارے عمل کو ایک مذاق سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ کچھ دِنوں بعد احساس ہو تا ہے کہ جسم و روح کا ایک ٹکڑا ہم سے جُدا ہو چکا ہے۔


خواتین کا SMALL VERSIONیعنی بٹیاں وفا کی مثال ہوتی ہیں خود تکلیف سہہ لین گی مگر باپ کے ماتھے پہ تکلیف کی بُوند بھی گوارا نہیں کر یں گی،
حرم کعبہ کے جنوب مغربیِ حصے میں وہ قبرستان واقع ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ یہاں قبل از اسلام بیٹیوں کو زندہ درگور کر نے کا چلن عام تھا،
اِسی جگہ پر دحیہ قلبی نامی عرب کی بیٹی بھی دفن ہے۔
جب وہ اسے دفن کرنے کی نیت سے لیکر جارہا تھا تو بیٹی سوال کر رہی تھی کہ با با مجھے نانی کے گھر لیکر جارہے ہیں کیا؟مجھے کہاں لیکر جارہے ہو؟
وہ پوچھتی جاتی ، کبھی باپ کے ہاتھ چو ُ متی ، کبھی با پ کے بازو اپنی گردن کے گِرد حمائل کر لیتی، باپ اُسکی قبر کھودتے کھودتے ذرا رُکتا تو وہ اپنے چھوٹے سے دو پٹے سے باپ کا پسینے بَھرا چہرہ صاف کرنے لگ جاتی ،
جب باپ نے بیٹی کو قبر میں دھکا دے کر گرایا اور مٹی ڈالنی شروع کی تو بیٹی نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جوڑ دےئے اور روتے ہوئے کہنے لگی ”بابا میں نہیں لیتی کھلونے ، بابا میں نانی کے گھر بھی نہیں جاؤ نگی۔

۔۔ اگر آپ کو میری شکل پسند نہیں تو میں کبھی آپ کے سامنے بھی نہیں آونگی “ مگر دحیہ قلبی مٹی ڈالتا گیا بیٹی کی چیخیں معدوم ہو گئیں۔
حضرات گزارش ہے کہ بیٹیوں پہ بے جا قدغن اور رُعب کی مٹی ڈالنے سے پہلے بس اتنا سوچ لیا کیجئے کہ کائنات کے اِس کینوس کے رنگ بیٹیوں کی چوڑیوں کی کھنکھاہٹ کے مقروض ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :