آئین سے متضاد سرکاری ملازمت کے بعض قوانین

پیر 4 نومبر 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ہم پاکستان میں مارشل لائی حکومتوں کو برا کہہ رہے ہیں اور انہیں تاریخ سے کھرچنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ مگر ان کے بنائے ہوئے بدبودار قوانین ابھی تک لاگو ہیں۔ انہی میں سے گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز مجریہ 1964ء کے بعض حصے ہیں جنہیں غیرجمہوری اور غیرفطری ہونے کے باعث اکیسویں صدی کے جمہوری اور شعوری معاشرے میں بدنما داغ ہی کہا جاسکتا ہے۔

مذکورہ قانون پاکستان کی بدقسمتی کے آغاز یعنی پہلے مارشل لاء دور کی پیداوار ہے۔ جب زبانیں نکال دی جاتی تھیں۔ گلے گھونٹ دےئے جاتے تھے۔ اخبارات کے دفاتر کو فوج فتح کرتی تھی۔ اس قانون کے مطابق ایک سرکاری ملازم کو اخبارات میں لکھنے اور میڈیا پر ظاہر ہونے کے لیے خاص پابندی سے گزرنے کو کہا گیا، جس کے بعد زرخیز تحریر ایک نامرد تحریررہ جاتی ۔

(جاری ہے)

اس قانون میں لٹریری تحریروں کی اجازت دی گئی مگر مضحکہ خیز بات یہ کہ فیض احمد فیض ،احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز جیسے ادبی Legends کو بھی آرام سے نوکری نہ کرنے دی گئی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچی لٹریری تحریریں بھی حکومت کو منظور نہیں بلکہ یہ قانون صرف خوشامدی تحریروں کو پاس کرنے کے لیے ہی بنا۔ عوام کی آزادی اور خودمختاری کے لیے 1973ء میں متفقہ آئین سامنے آیا جس کے آرٹیکل19 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہری کو فریڈم آف ایکسپریشن کا بنیادی حق دیا گیا۔

گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز مجریہ 1964ء کے مذکورہ حصے آئین کی اسی شق سے متصادم ہیں جنہیں ابھی تک ختم نہیں کیا گیا۔ اس قانون کے مذکورہ حصے کو مٹانے کے لیے آرٹیکل 19 کی دلیل ہی کافی ہے مگر پھر بھی کچھ مزید بحث کی جاسکتی ہے۔ سرکاری ملازم ریاست کا ملازم ہوتا ہے اور اس کی وفاداریاں ریاست کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ لازمی ہونی چاہےئیں۔ ضروری ہے کہ سرکاری ملازم اپنی وفاداریاں ریاست پاکستان کے ساتھ وابستہ رکھے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اسے جو کام سونپا گیا ہے وہ پوری تندہی سے ادا کرے۔

سرکاری ملازم کی ذاتی سیاسی وفاداریوں کا حکومتِ وقت کے ساتھ ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایسا ہو تو حکومت بدلنے کی صورت میں سرکاری ملازم سابقہ حکومت کا ہی وفادار رہے گا جس سے بے حد انتظامی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ حکومت ِ وقت کے ساتھ وفادار ہونا درباری قانون کے مطابق ہے، جب بادشاہ کا مذہب سب کا مذہب ہوتا تھا۔ جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق ایک سرکاری ملازم حکومت سے تنخواہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ہی لیتا ہے نہ کہ اپنی ذاتی سیاسی وفاداری کے عوض۔

سرکاری ملازم ملک کا شہری ہوتا ہے اور وہ انتخابات میں ووٹ بھی دیتا ہے جو کہ ایک مکمل سیاسی عمل ہے۔ لہٰذا سرکاری ملازم کا ذاتی حیثیت میں سیاست کی بات کرنا اور لکھنا اسی طرح حق ہے جیسے دوسرے شہریوں کا ہوتا ہے۔ حکومت کے حق میں بولنے اور لکھنے کے لیے انفارمیشن منسٹری، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ وغیرہ جیسے ادارے قائم ہیں جہاں سے سرکاری افسران و ملازمین اپنے فرائض کی انجام دہی کے طور پر حکومت کے حق میں دن رات پریس ریلیزیں اور آرٹیکل جاری کرتے رہتے ہیں۔

اگر 1964ء کے مذکورہ قانون کے تحت سرکاری ملازمین پر یہ پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں توپھر منطقی طور پر پرائیویٹ اداروں کے سربراہان بھی اپنے ہاں یہ قانون لاگو کر سکتے ہیں اور اپنے ملازمین کا اکٹھا ووٹ کسی سیاسی پارٹی کو بیچ سکتے ہیں۔ اگر ایسا شروع ہو جائے تو پھر جمہوریت کی کیا تعریف رہے گی؟ حساس اداروں یا سیکورٹی کے اداروں میں ملکی سا لمیت کے معاملات ہوتے ہیں جو پبلک نہیں ہونے چاہئیں۔

وہاں اس قانون پر سختی سے عمل ہونا چاہئے مگر ہر سرکاری ملازم خاص طور پر علمی و تحقیقی اداروں کے ملازمین کو اس کا پابند کرنا موجودہ دور میں غیر جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز مجریہ 1964ء کے غیر جمہوری حصوں کی گراؤنڈ رئیلٹی یہ ہے کہ بیشمار سرکاری محکموں کے چھوٹے بڑے سرکاری افسرو ملازم اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے ہیں اوراب بھی لکھ رہے ہیں، میڈیا پراپنا اظہارِخیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں مگر جب ناپسندیدہ یاکمزور سرکاری ملازم کی زبان بندی کرنی ہو تو اس قانون کو اس پر لاگو کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک ہی قانون کوامتیازی سلوک کا ذریعہ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ بیوروکریسی کی سوچ اور نیتوں کا کیا کہنا۔ 11اگست 1947ء کو قائداعظم کی تقریر پر پریس ایڈوائس لگادی گئی جس پرروزنامہ ڈان کے اس وقت کے ایڈیٹر الطاف حسین صاحب نے بھرپور احتجاج کیا۔ جو بیوروکریسی ”فادر آف دی نیشن“ کے اظہارِ رائے پر پابندی لگا سکتی ہے وہ سرکاری ملازمین کے فریڈم آف ایکسپریشن کے حق کو کیسے مانے گی؟ ممتاز دانشور، نامور تاریخ دان اور دورِحاضر کے فلسفی محترم پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے اس حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ ”فیلڈ مارشل ایوب خان کے سیکرٹریز قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے ”رائیٹرز گلڈ“ کے اجلاس میں اس قانون کو رائیٹرز کے لیے ویو آف کرنے کا اعلان کیا تھا“۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں جمہوریت ہے؟ اگر اہل دانش کی ایک کمیٹی بنا کر آئین سے متضاد ایسے غیرجمہوری اور مارشل لائی قوانین سے سرکاری ملازمین کو چھٹکارا دلایا جائے تو وہ بھی جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کا ٹھنڈا میٹھا پانی پی سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :