طلباء پر جبر، اور اساتذہ کی تربیت

منگل 5 اکتوبر 2021

Talha Tariq

طلحہ طارق

انسان اور دوسرے جانوروں کے مابین بنیادی تفریق ذہنی صلاحیتوں میں برتری کی وجہ سے ہے۔ یہی تفریق اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں دوسرے جانوروں کی نسبت انسان کے لیے علیحدہ طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستانی تعلیمی اداروں میں موجود استاد کہلانے والے اشخاص اس بنیادی امر سے بالکل لاعلم ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود انسانی اقدار سے مبرا یہ اشخاص روزانہ بچوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد کی دل دہلا دینے والی داستانیں رقم کرتے ہیں، جنہیں سن کر یہ گمان ہوتا ہے کہ آیا اس عظیم ترین شعبہ سے وابستہ یہ لوگ انسان کہلانے کے بھی لائق ہیں یا نہیں؟ آجکل میڈ یا کی بدولت ایسے چند واقعات خبروں کی ذینت بھی بن جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور انسانی حقوق کے علمبردار اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بچوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے ان اشخاص کو جو معاشرے میں استاد کے مقدس مقام پے براجمان ہیں، سخت سزا دی جائے تاکہ تعلیمی نظام بہتر ہوسکے۔

لیکن انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسی مثبت تبدیلی تربیت اور تحقیق پر مبنی اقدامات کے بغیر عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ کیونکہ جس طرح استاد تشدد کے ذریعہ سے بچوں میں کوئی مناسب بدلائو نہیں لاسکتے، بالکل اسی انسانی فطرت کے قانون کے تحت سزا دینے سے اساتذہ اس عمل سے گریز نہیں کریں گے۔ لحاظہ اس وحشیانہ روش کو معاشرے سے نکالنے کیلئے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ، اس عمل کے نتیجے میں انسان کی ذہنی نشوونما برے طریقے سے متاثر ہوتی ہے اور جس مثبت ذہنی تغیر کو پیدا  کرنے لئے اساتذہ یہ ظلم کرتے ہیں وہ اس طریقے سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم و تر بیت کے اہم موضوع پر بہت تحقیق ہوچکی ہے۔اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم پہلو مندرجہ ذیل پیش ہیں۔
 طلباء پر تشدد کی اقسام اور اسکے نتائج:
پاکستانی تعلیمی مدارس میں طلباء پر جو ظلم روا رکھا جاتا ہے اسکو جسمانی اور ذہنی تشدد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جسمانی تشدد میں  تمام اقسام کی بدنی سزائیں اور اذیتیں شامل ہیں۔

اسکے علاوہ  طالب علم کو برا بھلا کہنا،  اسے طعن و تشنی کا نشانہ بنانا، دوسرے بچوں کے سامنے اسکی تذلیل کرنا  اور اسکے تعلیمی نتیجے کو جواز بنا کے نالائق اور نکمہ قرار دے دینا۔ یہ سب ذہنی تشدد کے زمرے میں آتا ہے، اور بد اثر کے لحاظ سے  یہ جسمانی تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہر نفسیات  ڈاکٹر نگہت گیلانی کا کہنا ہے کہ " تعلیمی اداروں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے طالب علم کی ذہنی صلاحیتیں شدید متاثر ہوتی ہیں اورطالبعلم کا خود سے اعتماد رفتہ رفتہ ختم ہوجاتا ہے اور اسکی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔

ذہنی اذیت کی وجہ سے متاثرہ بچہ ڈپریشن کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ یہ سب عناصر مل کر بچے کی تعلیمی زندگی کے ساتھ  ساتھ اسکے مستقبل پر نہایت برا اثر پیدا کرتی ہیں "۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ذہنی تشدد ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہے کہ لوگ اسے تشدد شمار ہی نہیں کرتےاور نتیجتاً اس معاملہ کو اہمیت بھی نہیں دیتے۔
اساتذہ کا تشدد اور اسکی وجوہات:
ظلم و جبر کرتے وقت اساتذہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ مار پیٹ کرنا سکھانے کے عمل کو مؤثر بناتا ہے، اور طا لب علم کی تذلیل کرکے شرمندہ کرنے سے  اس کے اندر پڑھائی کرنے کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے۔

لیکن یہ خیال نہایت لغواور خلاف تحقیق و واقعات ہے۔ کیونکہ اول تو اساتذہ اپنا اندرونی بغز اور غصہ نکالنے کے واسطے  ہی ظلم  کرتے  ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر وہ نیت کے اعتبار سے اس جابرانہ عمل سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل کرنا چاہتے بھی ہوں تو جیسا کہ پہلے بیان کیا جا کا ہے کہ اس سے صرف نقصان ہی پہنچتا ہے۔ علاوہ ازیں اکثر استاد مار پیٹ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی اس اذیت کا شکار رہ چکے ہوتے ہیں، اس لیے انکے تجربہ میں سکھانے کا یہ واحد طریقہ ہوتا ہے ۔

اور وہ اپنی نا قابل تحسین  زندگی سے اس طریقے کا مناسب ہونا ثابت بھی کرتے ہیں۔ پھر اس ظلم کی افادیت ثابت کرنے کے لیے اساتذہ مختلف قسم کے قصے اور روایات مذہبی رنگ میں بچوں کو سناتے ہیں، جسے سن کر بچے مار پڑنے پر اگرچہ خوش نا صحیح مطمئن ضرور ہوجاتے ہیں۔  مثال کے طور پر "استاد کی مار دنیا اور آخرت سنوارتی ہے"، اور "بدن کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے وہاں جہنم کی آگ اثر نہیں کرتی" اول تو غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں باتیں آپس میں اختلاف رکھتی ہیں اور دوسرا اس سے ان اساتذہ کا فکری رجحان بھی واضح ہو جاتا ہے۔

غرض اس جیسی مزید لغو باتیں طلباء کے دماغ میں ڈال کر انکے ذہنی تغیر میں بگاڑ پیدا کیا جاتاہے، اور یہی طلباء بڑے ہوکر پھر اسی روش کو اختیار کرتے ہیں۔
  علم سکھانے کا مناسب طریق:
پاکستان میں تعلیمی نظام کی بربادی اور طلباء کی تعلیم حاصل کرنے سے بیزاری اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ نظام بے حد ناقص ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر کے علاوہ اساتذہ مؤثر تعلیم دینے کے لیے کیا
  کرسکتے ہیں۔

اس پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نگہت گیلانی کا کہنا ہے کہ " مار پیٹ  کے بجائے طلباء کے اندر موجود خصوصیات کو ابھارنے کے لیے کلاس روم میں ایسا ماحول بنایا جائے جہاں طلباء کو اچھا کام کرنے پے تعریفی کلمات یا پھر انعام سے نوازا جائے اور کسی غلطی پر اسکی ہتک نہ کی جائے بلکہ اسکو آئندہ کے لیے بہتر کارکردگی  کی تلقین کےساتھ رہنمائی کی جائے۔

اس کے برعکس  بیشتر اساتذہ غلطی کرنے پر تو طالب علم پر ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں مگر اچھے کام کو نہ ابھارا جاتا ہے اور نہ ہی اسکی تعریف ہوتی ہے۔ اور انسانی فطرت کا قانون ہے کہ جس فطرت کو پذیرائی نہ ملے وہ رفتہ رفتہ وجود انسانی کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے"۔ اسی واسطے اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ سمجھداری،  نرم رویے اور مناسب حکمت عملی سے دوستانہ ماحول میں طلباء کو علم سکھائیں ۔


غرض مندرجہ بالا پیش کردہ حقائق اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستانی تعلیمی نظام میں موجود  اس سرطان کو جس نے کئی طلباء کی تعلیمی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے، علاج کیا جائے۔ اسکے واسطے ہمیں نہ ہی اساتذہ کو ڈرانے دھمکانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ایسے بل پاس کرنے کی ضرورت ہے جو تشدد کرنے والے اساتذہ کو سزا دلوائے۔ اگر ضرورت ہے تو ایسے نظام کی ہے جس کے تحت تحقیق پر مبنی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو مؤثر تعلیم دینے کی تربیت دی جائے، تب ہی یہ مسئلہ حل اور ایک معیاری تعلیمی نظام قائم ہو پائے گا۔
(خصوصی تعاون: علیزہ میمن، یگانہ سید)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :