پاکستانی تعلیمی نظام، بنیادی مسائل اور حل

پیر 30 نومبر 2020

Talha Tariq

طلحہ طارق

تجسس انسان کا فطری جز ہے۔ اسی سے باریک بینی اور تخلیقی سوچ کو جنم ملتا ہے اور یہ دونوں خصوصیات ایک تعلیم و ترقی یافتہ معاشرے کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ انسان کی تمام ایجادات اور تحقیقات انہیں صلاحیتوں کا نتیجہ ہیں۔ مگرافراد میں ان  کا جنم اور پرورش ایک خاص ماحول اور معاشرے میں ہی واقع ہو سکتا ہے اور ان انفرادی صلاحیتوں کا درجۂِ کمال تک پہنچنا بھی اسی پر منحصر ہے۔

معاشرے کا ایک اہم عنصر جو اس عمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، وہ ہے تعلیمی نظام۔ اسی نظام کے زیرِ اثر ان صلاحیتوں کی  پرورش عمل میں آتی ہے۔ اور پھر یہ صلاحیتیں معاشرے اور قوم کے عظیم سائنسدانوں، فلسفیوں، تخلیق کاروں اور سب سے بڑھ کر باشعوراور اپنے حقوق و فرائض کی آگاہی رکھنے والے اشخاص کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

مگر تعلیمی نظام کے ناقص اور غیر معیاری ہونے کا نتیجہ ہمیں پاکستانی قوم اور معاشرے کی صورت میں نظر آتا ہے۔

اگر ہم اپنے ماضی اور حال کا جائزہ لیں اور مذکورہ بالا پیش کی گئی خصوصیات کے حامل لوگوں کو تلاش کرنا چاہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر تحقیق کا شعبہ دیکھا جائے تو بظاہر پاکستانی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تحقیق پر کافی روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے اور کافی تحقیقات بھی شائع ہوتی ہیں مگر ایک عمیق نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شائع کردہ تحقیقات میں  سے صرف  0.01 فیصد  حصہ ہی بین الاقوامی معیار کا ہوتا ہے۔

ایک رائے عامہ یہ ہے کہ مالی بدحالی کے باعث جدید تحقیق نہیں ہو پاتی، لیکن سائنسدان تو ایک طرف پاکستان میں اچھے فلاسفر اور تخلیق کار بھی ڈھونڈے  نہیں ملتے۔ فلسفہ نگاری اور تخلیق کاری تو پیسے کی محتاج نہیں ہے۔ان تمام تر باتوں کا ماخذ یہ ہے کے  ہمارا تعلیمی نظام بنیادی سطح یعنی پرائمری لیول پر سب سے زیادہ کمزور ہے ۔اور تحقیق سے ثابت ہے کہ بچے کی دماغی صحت، جسمانی صحت  کی مانند ایک مضبوط بنیاد پر موقوف ہے۔

اسی لیے بچوں کی تعلیم و تربیت کے شعبہ میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ اس نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے واسطے ہم ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور غور و فکر  کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ، مندرجہ ذیل مسائل خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔
اساتذہ کا معیار اور تربیت
استاد کی حیثیت تعلیمی نظام میں بنیادی ستون کی سی ہے۔

لیکن پاکستان میں اس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ درس گاہوں میں تعلیم دینے  والے اساتذہ کی کثیر تعداد نا اہل ہے۔ استاد بننے کے لئے کسی معیار کا تعین نہیں کیا گیا، اور خصوصی طور پر چھوٹی جماعت کے اساتذہ انتہائی درجہ کے غیر معیاری ہیں۔  ایسے استاد نہ تو بچے کی اخلاقی تربیت کرپاتے ہیں اور نہ ہی سوچ و فکر میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

بلکہ اپنے جبر اور بد اخلاقی سے طلباء کو تعلیم سے خائف کر دیتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں ترقی یافتہ ممالک سے رہنمائی لینی چاہئے جہاں استاد بننے کے لئے ضروری تعلیم کے ساتھ خصوصی تربیت بھی دی جاتی، اور اساتذہ کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کیسے مختلف بچوں کے نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے موثر انداز میں تعلیم دی جائے۔ اسی واسطے پاکستانی تعلیمی نظام تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک اساتذہ کا معیار ایک منظم کوشش کے تحت بہتر نہ کیا جائے۔


 طلباء میں سوال پوچھنے کی صلاحیت
تجسس کا اظہار سوالات کی صورت میں ہوتا ہے۔ لیکن اس سوچ کے اظہار پر خصوصی طور پر گھریلو اور درس گاہ  کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگر بچپن سے ہی سوال کرنے پر قدغن لگائی جائے یا پھر مناسب ردِّ عمل نہ كيا جائے تو یہ عمل بچے کی نفسیات پر انتہائی منفی اثر ڈالتا ہے۔  ماہرینِ نفسیات کے مطابق بچہ منفی ردِّ عمل کے باعث سوال کرنے سے کتراتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ سوال کرنا اس کی فطرت سے نکل جاتا ہے۔

ایسی حالت میں سوچ و فکر میں تغیر نا ممکن ہے۔ اسی واسطے ہمیں گھر اور درس گاہوں میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جو سوال کرنے کی صلاحیت کو نکھارے۔
 پرائمری لیول اور تحقیق کی طرف رجحان
تحقیق انسانی سوچ و فکر میں وسعت لے کر آتی ہے ۔ اور اس کے نتائج ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ مگر تحقیق کرنے کے لئے خاص ذہنیت اور سلیقہ درکار ہے۔

عمومی طور پر یہ خیال کیا جا تا ہے کہ تحقیقاتی کام بڑی عمر کے لوگ کرتے ہیں،  مگر یہ خیال بالکل غلط ہے کیوں کہ بچپن سے ہی انسانی سوچ کا ارتقا شروع ہو جاتا ہے اور یہ ایک آزمودہ امر ہے کہ، اگر اس عمر سے  ہی بچے میں تحقیق اور غور و فکر کی طرف رجحان پیدا کیا جائے تو یہ اندازِ فکر اس کے وجود کا مستقل حصہ بن جاتا ہے اور دماغ  مزید نشوونما پاتا ہے۔

اس کے علاوہ تحقیق سیکھنے کے عمل کو بھی دلچسپ بناتی ہے اور خود سے دریافت کی گئی چیز ہمیشہ کے لئے دماغ پہ نقش ہو جاتی ہے۔ تحقیق کی غرض کے لیے مطالعہ کتب اور انٹرنیٹ بہترین ذریعہ ہیں، اسی لیے بچوں کو مختلف مضامین  کی کتب پڑھنے اور انٹرنیٹ کو تحقیق کے لیے استعمال کرنا سکھایا جائے۔
نصابی کتب ایک غیر ضروری بوجھ
نصابی کتب کا تصور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ختم ہو رہا ہے۔

کیونکہ آجکل کے جدید دور میں انٹرنیٹ کی سہولت سے ہر فرد کو تمام اقسام کے علوم تک رسائی حاصل ہے۔ انٹرنیٹ مختلف علوم سیکھنے اور تحقیق کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی واسطے طلباء کو انٹرنیٹ کا مناسب استعمال سکھایا جائے۔ اس سے طالبِ علم ایک موضوع کو مختلف انداز سے جانچ سکتا ہے اور ایک ہی چیز کے مختلف پہلو اس کے سامنے عیاں ہوتے ہیں۔

جبکہ ایک اکیلی نصابی کتاب طالب علم کے نقطۂِ نظر کو محدود رکھتی ہے۔
 طلباء میں عقلی بحث و مباحثہ کا فروغ
بحث و مباحثہ تبادلۂِ خیال اور اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک قوم میں سے اختلافِ رائے اور بحث کا رواج ختم ہو جائے تو اس کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ بحث سے نا صرف سوچ و فکر میں وسعت آتی ہے، بلکہ انسان دوسرے شخص کے جذبات اور نقطۂِ نظر کی عزت کرنا سیکھتا ہے، اور برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔

لیکن بحث کرنے کے کچھ آداب اور سلیقہ ہوتے ہیں، اور یہ اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچے کو ان آداب سے آشنا کروائیں ۔ اساتذہ کمرۂِ جماعت میں اور والدین گھر میں بچوں کو عقلی بحث میں مشغول کریں۔ اس کے برعکس ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بحیثیت قوم ہمارے دماغ زنگ آلود ہو چکے ہیں اور برداشت کا مادہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔ جس کے سخت نتائج نفرت سے لے کر قتل و غارت تک ہمارے سامنے ہیں۔


تعلیم دینے اور طرزامتحان میں تبدیلی
رسمی طور پر پاکستان میں ایک تعلیمی سال کی روداد نصابی کتب ذہن نشین کرنے سے امتحانی پرچے پر وہی کتاب چھاپنے تک محدود ہے۔ یہ ایک لغو اور ناپائیدار طریقہ ہے جو انسانی تدبر و فکر کے اظہار کے  تمام راستے بند کردیتا ہے۔ اسی واسطے ہمیں سکھا نے کے عمل سے لے کر امتحان  لینے کے طریقے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کی طرف دیکھیں تو وہ عملی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی عملی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مختلف  ادارے انفرادی حیثیت میں کام کر رہے ہیں، ان اداروں میں سے ایک ادارہ سائنس فیوز ہے، جو پاکستان میں سائنسی تعلیم و تحقیق کو نمایاں انداز میں فروغ دے رہا ہے ۔ اس ادارے کی بانی لالہ رخ (جو ایک قابل استاد اور سائنس جرنلسٹ ہیں) کا کہنا ہے کہ  " اساتذہ کو چاہیئے کہ تعلیم دینے کے عمل کو مزید دلچسپ بنائیں۔

جس کے لیے چھوٹی  جماعت سے ہی طلباء کو سائنسی تجربات اور عملی تعلیم میں مشغول کیا جائے، اس سے بچہ مضمون میں دلچسپی لیتا ہے، اور اسکی تجسسی فطرت سوالات اور مزید تحقیق کا شوق پیدا کرتی ہے "۔  علاوہ ازیں رسمی طرز امتحان کو ترک کرکے طالب علم کے جائزہ کی غرض سے عمر کی مناسبت اور مضمون کے مطابق مسائل حل کرنے کو دئیے جائیں۔ کیونکہ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ عملی تعلیم،  سیکھنے کا سب سے موثر طریقۂِ کار ہے۔

 
غرض ان تمام باتوں پہ عمل کیا جائے تو پاکستانی تعلیمی نظام میں کمال درجہ  کی مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت کی طرف سے ایک منظم کوشش درکار ہے۔ اور حکومت کو چاہئیے کہ وہ نہ صرف تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے بلکہ اس تبدیلی سے پیدا ہونے والے نتائج پر نظر بھی رکھے، تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ مناسب بدلائو کیا جاسکے۔ لیکن لمحۂِ فکریہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، لیکن ہم اپنی روایت کے مطابق مسئلے کی بنیادی وجوہات کا تعین کرنے اوران کا حل تلاش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔

جس کی مثال موجودہ حکومت کی یکساں نصابی پا لیسی سے ملتی ہے۔ اگر تعلیمی مسائل پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب بنیادی مسائل کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت سے درخواست ہے کہ اگر وہ پاکستانی تعلیمی نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو، اول ان پیش کیے گئے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :