فکر

ہفتہ 5 جون 2021

Tamseel Fatima Jilbani

تمثیل فاطمہ جلبانی

انسان کا جوطرہ امتیاز ہے وہ اس کی"فکر"ہے۔فکر، انسان کی فطرت کا لازمہ ہے کیونکہ یہ ہی وہ امتیاز ہے جو انسانوں کو باقی مخلوقات سے ممتاز اور جدا کرتی ہے۔بقول ڈاکٹر اقبال:
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
 خداوند متعال قرآن مجید کے نزول کے ہدف کو تفکر قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے "کتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوٓا اٰيَاتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُو الْاَلْبَابِ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقلمند نصحیت حاصل کریں" (سورہ ص، آیہ ۲۹)۔

انسان  غور و فکر کرے اور فکر کے ذریعے اپنے مقام بندگی تک پہنچ سکے۔

(جاری ہے)

انسان کی بلند پروازی   اس کی فکر کا نتیجہ ہے یعنی انسان جتنا تفکر کرے گا اتنا ہی اس کی پرواز میں اضافہ ہوگا۔اور فکر کو بلند کرنےکا واحد راستہ زیادہ تفکر کرنا ہے۔
ہر انسان اپنے خیالات و افکار کا خود خالق ہے، اگر انسان کے خیالات و افکار کا کوئی اور خالق ہوتا تو پھر انسان کا کوئی کمال نہ ہوتا۔

انسان  کوکمال تک پہنچانے کے لیے ہی خدا نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے۔ تاکہ  انسان اپنے اختیار سے سعادت تک پہنچ سکے۔اگر چہ ماحول اور دیگر شخصیات اس کی فکر میں موثر ثابت ہوتی ہیں مگر پھر بھی اختیار انسان کو ہی  ہے کہ وہ ان خیالات کو اپنے اندر پیدا کرے یا نہیں اور  یہ تو انسان  کے کمالات میں سے ہے کہ وہ کس قسم کے خیالات کا خالق بنتا ہے۔

اور ان ہی افکار سے ہی انسان کی شخصیت بنتی ہے، کیونکہ فکر انسان کے اعمال و کردار میں متجلی ہوتی ہے اور کسی شخص کی شخصیت اس کے عمل و کردار سے ہی بنتی ہے۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم   مثبت فکر کے خالق بنیں تاکہ ہماری  شخصیت بھی مثبت ہو۔امام علی فکر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "فکر ایک روشن آئینہ ہے"(نہج البلاغہ، حکمت: ۳۶۵)۔یعنی فکر انسان کی مکمل اور واضح و روشن عکاسی کرتی ہے۔


انسان کی حیات اور بقا کا راز بھی اسی"فکر" میں پوشیدہ ہے،یعنی انسان اپنی فکر سے زندہ ہے۔اگر کوئی انسان جسمی طور پر مر بھی جائے لیکن اس کی فکر معاشرے میں زندہ ہو تو در حقیقت وہ انسان حیات ہے۔ جیسے کہ امام خمینی اور ڈاکٹر اقبال کی جسمی موت کو مدت ہوگئی ہے مگر آج بھی یہ شخصیات حیات ہیں،کیونکہ ان کے افکار معاشرے میں زندہ ہیں۔اور اسی وجہ سے شہداء کو بھی زندہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا مشن اور ان کی فکر معاشرے میں موجود ہوتی ہے۔

انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی فکر کو ایک"نظریہ"میں تبدیل کرے،پھر  اس نظریہ کو معاشرے میں پیش کرے تاکہ اس فکر اور نظریہ کو عملی جامہ پہنا یا جاسکے۔ جیسا کہ ہمارے اقبال نے کیا۔ڈاکٹر اقبال نے  اپنی فکر کو ایک نظریہ میں تبدیل کیا اور اسے معاشرے میں لوگوں کے سامنے پیش کیا پھر ۲۳ مارچ کو  ڈاکٹر اقبال کی فکر پر قرارداد منظور کی گئ اور یہ ہی  پاکستان فکر اقبال کا نتیجہ ہے۔


اسی لیے اپنی فکروں کو اپنے آپ تک محدود نہ کرے بلکہ کوشش کریں کہ اپنے افکار کو جتنا ہوسکے پھیلائیں مگر ہر فکر  نہیں صرف فکر رحمانی کو۔اپنے افکار کو اپنے دوستوں، والدین اور اساتذہ سے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔کیونکہ ممکن ہے کہ فکر محض ایک شخص کی ہو مگر اس فکر کو عملی جاما پہنانا تنہا اس شخص کی بات نہیں، فکر کو عمل میں تبدیل کرنے کے لیےضروری ہے کہ انسان دوسروں سے اس فکر کو شیئر کرے۔

تاکہ اس فکر کو عملی جاما پہنایا جاسکے۔
بہترین فکر وہ ہے جو"دور اندیشی" پر مبنی ہو  یعنی انسان اپنی فکر کے نتیجہ میں صرف اپنا "آج" نہ سنوارے بلکہ اپنا اور اپنے معاشرے کا"کل" بھی سنوارے۔ بقول ڈاکٹر اقبال
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانہ کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
ہماری فکر ہمیشہ فکر رحمانی ہونی چاہیے، ہماری فکروں میں ہمیشہ خود اپنے لیے اور معاشرے کے لیے درد ہو، ہماری فکروں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو۔الغرض یہ کہ ہماری فکر "انقلابی فکر" ہو۔
بڑا سوچیں تاکہ بڑا بن سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :