نوجوان اس ملک کا اصل اثاثہ ہیں

بدھ 19 مئی 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

وہ ایک پڑھی لکھی اور نامور شخصیت کے مالک ہیں، اللہ نے ان کو بے شمار عزتوں سے نوازا ہے، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمانے لگے "میں آج کی نواجوان نسل کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے، ان کی زندگیاں تعلیمی کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئیں ہیں جن میں نا تعلیم ہے اور نہ ہی تربیت، سکول کالجز نوجوانوں کو نوٹس دے کر رٹا لگوارہے ہیں، یونیورسٹیاں کاغذوں کے بے وقعت پلندے بانٹ کر نوٹ بٹورنے میں مصروف ہیں جبکہ ہماری نوجوان نسل اپنی زندگی کے دس پندرہ سال رٹے لگاتے اور بےمعنی ڈگری کے لئے جدوجہد کرتے ضائع کردیتی ہے، تعلیم کا بنیادی مقصد نوجوانوں کی تربیت کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے قابل ہوسکیں، دس پندرہ سال کی ٹریننگ اس لئے ڈیزائن کی جاتی ہے کہ یہ کل کو جس وقت زندگی کے میدان میں اتریں تو گھبرائے ہوئے نہ ہوں بلکہ ان کو پتہ ہو ہم نے زندگی کی بے رحمی کا مردانہ وار مقابلہ کیسے کرنا ہے، گر کر اٹھنا کیسے ہے، معاشرے میں بے نام ہوتے ہوئے نام کیسے بنانا ہے اور ابتداء سے انتہاء کی منزلوں کو کیسے سر کرنا ہے وگرنہ کتابیں رٹانے کا کام تو کسی ایک بندے کو ہائر کرکے بھی کروایا جاسکتا ہے اس کی خاطر ان کو سکول بھیجنے کی کیا ضرورت؟ وہ فرماتے ہیں" ہمارے بچوں ہمارے نوجوانوں نے 15 سال لگاکر صرف سلیبس کی کتابوں کا منہ دیکھا ہوتا ہے، ان کو زندگی کے مقصد کا پتا ہوتا ہے اور نہ ہی خود میں چھپی صلاحیتوں کا اندازہ، یہ زندگی کی راحتوں اور بے رحمیوں سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں، ان میں آگے بڑھنے کی لگن ہوتی ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ، یہ سارے کام تعلیمی نظام کی ذمہ داری ہوتے ہیں، ان کی تکمیل والدین اور معاشرے کا اولین فرض ہوتا ہے جبکہ تینوں میں سے کوئی بھی ان کو مکمل ایمانداری سے سرانجام نہیں دے رہا تاہم یہ اس بات کے متمنی ہیں کہ انہیں وہ مقام اور مرتبہ دیا جائے جس کے یہ حقدار ہیں مگر یہ لوگ ایسی خواہشیں کرتے وقت اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ انھیں اس مقام ومرتبہ سے اپنے فرائض پورا کرنے کی صورت میں نوازا گیا ہے اور فرائض پورا کرنا تو دور انہوں نے پوری نسل کو تباہ وبرباد کرکہ رکھ دیا ہے.
میں نے عرض کی "کیا معاشرہ، والدین اور تعلیمی نظام اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے"؟  وہ بولے "ذمہ داریاں ان لوگوں کو تو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی تک حاصل نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نوجوانوں کی تربیت کے سلسلے میں یہ تینوں اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو پھر نئی پود اپنی ذات، اپنی حدود وقیود، اپنی صلاحیتوں اور اپنے آپ سے نابلد کیوں ہے؟ یہ زندگی کی دوڑ میں مقابلے کے لئے کیوں نہیں نکل رہئ؟ میں نے ایک مرتبہ اپنے ایک استاد سے پوچھا " ہمارا تعلیمی نظام نوجوان بچے کی تربیت کرنے میں ناکام کیوں ہے"؟ وہ جھٹ سے بولے "ہم اپنی مکمل خدمات سرانجام دے رہے ہیں، بچے کی تربیت میں ناکامی ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ والدین اور معاشرے کی وجہ سے ہورہی ہے"  میں نے جب ان سے پوچھا وہ کیسے؟ تو وہ مثال دیتے ہوئے بولے "دیکھو ایک بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم نے پیار، محبت اور سلوک سے رہنا ہے جب وہی بچہ پیار محبت کی دھجیاں اپنے گھر میں اڑتے دیکھتا ہے تو تم خود سوچو اس سے اس پر کیا اثر پڑے گا؟ بالکل اسی طرح جب وہ معاشرے میں لوگوں کو جھوٹ بولتے، بےایمانی کرتے، ڈاکہ ڈالتے اور ملاوٹ کرتے دیکھتا ہے تو کنفیوژ ہوجاتا ہے" میں نے عرض کی سر آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر "یہ لوگ بھی تو کبھی نہ کبھی آپ کے شاگرد رہے ہوں گے؟ یہ بھی تو سکولوں میں آپ سے پڑھے ہوں گے تو پھر یہ کیوں نہ سدھر سکے؟" دوسری طرف والدین بچوں کو بول رہے ہوتے ہیں "تمہارے استادوں نے تمہیں یہ سب سکھایا ہے، کیا تمہیں سکول میں کچھ سکھاتے نہیں" معاشرہ دو ہاتھ آگے نکلتے ہوئے استادوں اور والدین دونوں کو قصوروار ٹھہرا رہا ہوتا ہے اور خود کو ان نوجوانوں کے والدین نے تو ان کی تربیت ہی ایسے کی ہے، سکولوں میں ان کو یہی کچھ سکھایا جاتا ہے جیسی باتیں کرکہ معصوم ثابت کر لیتا ہے، درمیان میں بیچارے نوجوان فٹبال کی طرح ادھر سے ادھر ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں، میں نے ان سے عرض کی ہم اپنے نوجوانوں کی کیسے بہتر اور مؤثر انداز میں تربیت کرسکتے ہیں؟ وہ فرمانے لگے "اگر ہم واقعی ہی اپنے نوجوانوں کو کسی قابل بنانا چاہتے ہیں، ان کو بحیثیت اولاد، بحیثیت معاشرے کا اہم فرد اور بطور ایک قابل طالبعلم کسی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں تسلیم کرتے ہوئے فرصت کے ان لمحات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ہمیں تعلیمی نظام کو مکمل ری شیپ کرنا ہوگا، حکومتی وزراء اور اساتذہ کرام کو مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس سے گزر کر ایک شاندار انسان تخلیق ہو، کالج سے فارغ ہونے سے پہلے بچوں کو اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کا اندازہ اور ان سے مکمل آگاہی حاصل ہو جبکہ یونیورسٹی کے دورانیے میں ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا جائے، انہیں اخلاقیات، انسانیت، امن وآتشی مذہب اور سائنس وٹیکنالوجی سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے تاکہ یونیورسٹی سے باہر قدم رکھنے والے کے پاس فقط ایک ڈگری نہ ہو بلکہ وہ ہر اس چیز سے لیس ہو جس کی زندگی میں ضرورت پیش آنے والی ہے، والدین اور معاشرے کو بھی سمجھنا ہوگا تربیت کا کام صرف تعلیمی اداروں کا نہیں ہے، تعلیمی ادارے نوجوانوں کو جو کچھ سکھاتے ہیں وہ کام معاشرے میں پریکٹیکلی بھی نظر آنے چاہییں، معاشرہ نوجوانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ زندگی کے میدان میں قدم جماسکیں اور خود کو ثابت کرسکیں" آخر میں وہ فرماتے ہیں "یہ یاد رکھیں ملک، ملک وسائل سے نہیں نوجوانوں سے بنتے ہیں،  نوجوان ہی ہر ملک کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں، انہوں نے ملک کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانا ہوتا ہے اور جب کوئی ملک اپنے نوجوانوں کو ضائع کرنا شروع کردے تب اس کے خود بھی برباد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :