
نوجوان اس ملک کا اصل اثاثہ ہیں
بدھ 19 مئی 2021

عمر فاروق
میں نے عرض کی "کیا معاشرہ، والدین اور تعلیمی نظام اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے"؟ وہ بولے "ذمہ داریاں ان لوگوں کو تو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی تک حاصل نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نوجوانوں کی تربیت کے سلسلے میں یہ تینوں اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو پھر نئی پود اپنی ذات، اپنی حدود وقیود، اپنی صلاحیتوں اور اپنے آپ سے نابلد کیوں ہے؟ یہ زندگی کی دوڑ میں مقابلے کے لئے کیوں نہیں نکل رہئ؟ میں نے ایک مرتبہ اپنے ایک استاد سے پوچھا " ہمارا تعلیمی نظام نوجوان بچے کی تربیت کرنے میں ناکام کیوں ہے"؟ وہ جھٹ سے بولے "ہم اپنی مکمل خدمات سرانجام دے رہے ہیں، بچے کی تربیت میں ناکامی ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ والدین اور معاشرے کی وجہ سے ہورہی ہے" میں نے جب ان سے پوچھا وہ کیسے؟ تو وہ مثال دیتے ہوئے بولے "دیکھو ایک بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم نے پیار، محبت اور سلوک سے رہنا ہے جب وہی بچہ پیار محبت کی دھجیاں اپنے گھر میں اڑتے دیکھتا ہے تو تم خود سوچو اس سے اس پر کیا اثر پڑے گا؟ بالکل اسی طرح جب وہ معاشرے میں لوگوں کو جھوٹ بولتے، بےایمانی کرتے، ڈاکہ ڈالتے اور ملاوٹ کرتے دیکھتا ہے تو کنفیوژ ہوجاتا ہے" میں نے عرض کی سر آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر "یہ لوگ بھی تو کبھی نہ کبھی آپ کے شاگرد رہے ہوں گے؟ یہ بھی تو سکولوں میں آپ سے پڑھے ہوں گے تو پھر یہ کیوں نہ سدھر سکے؟" دوسری طرف والدین بچوں کو بول رہے ہوتے ہیں "تمہارے استادوں نے تمہیں یہ سب سکھایا ہے، کیا تمہیں سکول میں کچھ سکھاتے نہیں" معاشرہ دو ہاتھ آگے نکلتے ہوئے استادوں اور والدین دونوں کو قصوروار ٹھہرا رہا ہوتا ہے اور خود کو ان نوجوانوں کے والدین نے تو ان کی تربیت ہی ایسے کی ہے، سکولوں میں ان کو یہی کچھ سکھایا جاتا ہے جیسی باتیں کرکہ معصوم ثابت کر لیتا ہے، درمیان میں بیچارے نوجوان فٹبال کی طرح ادھر سے ادھر ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں، میں نے ان سے عرض کی ہم اپنے نوجوانوں کی کیسے بہتر اور مؤثر انداز میں تربیت کرسکتے ہیں؟ وہ فرمانے لگے "اگر ہم واقعی ہی اپنے نوجوانوں کو کسی قابل بنانا چاہتے ہیں، ان کو بحیثیت اولاد، بحیثیت معاشرے کا اہم فرد اور بطور ایک قابل طالبعلم کسی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں تسلیم کرتے ہوئے فرصت کے ان لمحات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ہمیں تعلیمی نظام کو مکمل ری شیپ کرنا ہوگا، حکومتی وزراء اور اساتذہ کرام کو مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس سے گزر کر ایک شاندار انسان تخلیق ہو، کالج سے فارغ ہونے سے پہلے بچوں کو اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کا اندازہ اور ان سے مکمل آگاہی حاصل ہو جبکہ یونیورسٹی کے دورانیے میں ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا جائے، انہیں اخلاقیات، انسانیت، امن وآتشی مذہب اور سائنس وٹیکنالوجی سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے تاکہ یونیورسٹی سے باہر قدم رکھنے والے کے پاس فقط ایک ڈگری نہ ہو بلکہ وہ ہر اس چیز سے لیس ہو جس کی زندگی میں ضرورت پیش آنے والی ہے، والدین اور معاشرے کو بھی سمجھنا ہوگا تربیت کا کام صرف تعلیمی اداروں کا نہیں ہے، تعلیمی ادارے نوجوانوں کو جو کچھ سکھاتے ہیں وہ کام معاشرے میں پریکٹیکلی بھی نظر آنے چاہییں، معاشرہ نوجوانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ زندگی کے میدان میں قدم جماسکیں اور خود کو ثابت کرسکیں" آخر میں وہ فرماتے ہیں "یہ یاد رکھیں ملک، ملک وسائل سے نہیں نوجوانوں سے بنتے ہیں، نوجوان ہی ہر ملک کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں، انہوں نے ملک کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانا ہوتا ہے اور جب کوئی ملک اپنے نوجوانوں کو ضائع کرنا شروع کردے تب اس کے خود بھی برباد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر فاروق کے کالمز
-
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
حقیقی اسلام کی تلاش!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
کیا شیطان بے قصور ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
"عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں"
منگل 4 جنوری 2022
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں! ۔ آخری قسط
منگل 7 دسمبر 2021
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
والدین غلط بھی ہوسکتے ہیں !
پیر 22 نومبر 2021
-
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ آخری قسط
بدھ 29 ستمبر 2021
عمر فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.