
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022

عمر فاروق
اب آتے ہیں جواب کی طرف: اگر ہم غور سے دیکھیں تو اسلام کی بنیادی تعلیمات واضح اور شفاف ہیں: مثلا حکم ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کریں، رمضان میں روزے رکھیں، استطاعت ہوں تو حج کا فریضہ ادا کردیں، کتاب مبین(قرآن) میں خدائی پیغام عبادات سے زیادہ اخلاقیات پر زور دیتا نظر آتا ہے جس کا معاشرے میں فقدان بہرحال اہم مسئلہ ہے اور یہ صورتحال ان ٹھیکداروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ ہے جو ملت اسلامیہ کے اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں، روح وقلب جب سچائی کی روشنی سے محروم ہوں تو بڑے بڑے جلسوں میں زبان کی حرکت اور پھیپھڑوں کا زور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوتا، مال کی مقدار کے مطابق زکوة کی ادائیگی کا اہتمام کردیا گیا، استحقاق کی بنیاد پر وراثت کی مقدار معین کردی اور تکمیل ایمان کی شرائط ہم سب پر واضح ہیں گویا وہ تمام احکامات جن پر اسلامی عمارت کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ خدا کی جانب سے آسان الفاظ میں بیان کردیے گئے ہیں تاہم مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب مسلکی تشریحات آڑے آکر ان احکامات کو مشکل ترین شکل میں رنگ دیتی ہیں کہ نماز میں آمین کہنا ہے یا نہیں، ہاتھ کہا باندھنے ہیں، ٹخنے ننگے ہوں گے یا پھر کوئی مسئلہ نہیں! کہیں قرأت کے مسائل تو کہیں زکوة مولوی جی کو دیں گے یا کسی غریب ضرورت مند کے بچے کو؟ لہذا میرے ناقص فہم کے مطابق بہتر ہے ایک عام شخص کو فروعی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے نیت کی مضبوطی اور تقوی کی تحصیل پر زور دینا چاہیے، مثال کے طور پر ایک شخص ظہر کی نماز اپنے مسلکی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے رفع یدین اور ٹخنوں کے ننگے ہونے یا نہ ہونے کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے ادا کرتا ہے تاہم اس کے دل میں یہ خیال بھی موجود ہے کہ اس کا نماز ادا کرنے کا طریقہ ملعون بریلوی، شیعہ یا فلاں بن فلاں سے بہتر ہے تو کیا دل میں نفرت کی چنگیاریاں پال کر نماز پڑھنے والے اس شخص کی نماز، ایک ایسے شخص سے بہتر ہوگی جو نماز کو صرف رضائے الہی کے لئے ادا کرے؟ جس کی نیت میں پاکیزگی اور قلب حب کبریاء کے جذبات سے موجزن ہو؟ عبادات اور دینی معاملات مکمل طور پر "رجوع الی اللہ کا" تقاضہ کرتے ہیں اور اگر مسلکی تشریحات وافہام بنیادی اغراض ومقاصد کی تحصیل سے ہی قاصر ہوں تو ان کی جانب ملتفت ہونے کا مطلب؟ آخر ہمارے پاس ان سے رہنمائی لینے کا کیا جواز بچتا ہے؟ لہذا ہر وہ شخص جو نفرت انگیزی اور تفرقہ بازی کے ناسور سے خود کو بچاتے ہوئے مذہبی احکامات کی بجا آوری کا متمنی ہے اسے اسلام کی بنیادی صداقتوں پر کسی قسم کی جھجک اور پریشانی کے بغیر عملدرآمد کرنا چاہیے تاہم جو معاملات وضاحت کے متقاضی ہیں ان میں روشن اذہان اور بالغ ذہنوں کے حامل علماء کی جانب التفات کرتے ہوئے توضیح و تشریح کی التجا کرنی چاہیے تاکہ یہ لوگ آپ پر صداقتوں کے در وا کرسکیں نہ کہ مسلکی تشریحات میں الجھا کر اندھے غار میں دھکیل دیں، آخر میں رہا کہ ایک عقل پسند کو کس حد تک عقل پرست ہونا چاہیے؟ تو میرے خیال میں تعقل پسندی کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی، آپ جس حد تک اپنی عقل اور ذہن کو استعمال کرسکتے ہیں اس کو بروئے کار لائیں تاہم یہ یاد رہے عقل کی بنیاد پر کیا جانے والا فیصلہ تعصبات اور اور عقیدتوں کی آلائشوں سے پاک ہونا چاہیے�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر فاروق کے کالمز
-
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
حقیقی اسلام کی تلاش!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
کیا شیطان بے قصور ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
"عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں"
منگل 4 جنوری 2022
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں! ۔ آخری قسط
منگل 7 دسمبر 2021
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
والدین غلط بھی ہوسکتے ہیں !
پیر 22 نومبر 2021
-
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ آخری قسط
بدھ 29 ستمبر 2021
عمر فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.