خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1

ہفتہ 27 نومبر 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

برٹرینڈ رسل کا تعلق کٹر مذہبی گھرانے سے تھا، والدین کے مرتے ہی مذہب سے کنارہ کشی اختیار کی اور "لا ادریت" سے منسلک ہوگئے، رسل نے لکھا تھا "لوگوں کی کثیر تعداد کا خدا پر ایمان اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ خدا موجود ہے "خاص طور پر رسل کا ماننا تھا "کسی شے کے وجود کو ثابت نہ کر پانے سے اس شے کی موجودیت کا دعوی کرنا انتہائی احمقانہ فعل ہے" لہذا رسل کا خیال تھا کہ خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے ان کے خیال میں خدا پر ایمان لانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے بلکل اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار علم فلکیات کے ماہر امریکی سائنس دان، کارل ساگان نے اپنی کتاب ’دی ڈیمون ہنٹڈ ورلڈ‘ میں خدا کے وجود کے ثبوت کی نوعیت بیان کرتے ہوئے کیا، ان کا ماننا تھا ’وہ دعوے جن کو جانچا نہیں جا سکتا، ایسے دعوے جن کی تردید نہیں کی جاسکتی، معتبر طور پر بے کار ہوتے ہیں چاہے وہ ہمارے لیے کتنے ہی متاثر کن کیوں نہ ہوں۔

(جاری ہے)

‘ کیا ملحدین مغرب میں فقط یہی لوگ تھے جنہوں نے خدا کے عدم وجود پر ان خیالات کا اظہار کیا؟ جی نہیں! ڈارون، ہکسلے، کارل مارکس، فرائیڈ، نیوٹن، پاسچر بھی خدا کے وجود پر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں جولین ہکسلے نے کہا تھا "نیوٹن نے یہ ثابت کردیا کہ کوئی ایسا خدا موجود نہیں جو ستاروں کی گردش کو کنٹرول کرتا ہو، علمی دنیا میں اب یہ عقیدہ عام ہوگیا ہے کہ نظام فلکی کو کسی خدا کی کوئی ضرورت نہیں" والٹیئر کہتا ہے"کائنات میں خدا کا مقام اس گھڑی ساز کا ہے جو گھڑی بنانے کے بعد اس سے لاتعلق ہوگیا" نیوٹن کا ماننا تھا "اگر خدا کی گنجائش نکل سکتی ہے تو صرف اتنی کہ وہ محرک اول ہے" اور تو اور مرنے سے پہلے سٹیفن ہاکنگ نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا تھا "کائنات کا وجود ثابت کرنے کے لئے کسی خدا کی کوئی ضرورت نہیں، مجھے پورا یقین ہے سائنس ایک دن ضرور اس کائنات کو بغیر کسی خدائی وجود کے ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی" ان سب کا ماننا ہے کہ جدید علوم نے پرانے نظریات کو غلط ثابت کردیا، کمزور انسانوں کے پاس آفتوں، طوفانوں، سیلابوں اور بیماریوں سے بچنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہ تھا لہذا اس نے اپنی تسکین کے لئے ایسا خدا تراش لیا جس کو مصیبت کے وقت بلایا جاسکے گویا خدا انسانی ذہن کی تخلیق ہے"، آپ کو سوشلزم، مارکسزم میں بھی ایسے ڈھیروں نظریات ملتے ہیں جو خدا کی عدم موجودگی کو زیر بحث لاتے ہیں اور سب سے بڑہ کر آپ خود سوچیں آج کی جدید دنیا میں کل 5500 خدا موجود ہیں، ہر مذہب نے اپنا اپنا خدا تراشا ہوا ہے اسی طرح دنیا میں مذاہب کی تعداد بھی لگ بھگ 6000 کے قریب ہے تو اگر ہم کسی خدا کو ماننا بھی چاہیں تو کس خدا کو تسلیم کریں؟ اور پھر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کونسا مذہب مبنی برحق اور کونسا خدا صحیح ہے؟ آخر حقیقت کا متلاشی ایک عام آدمی کیا کرے؟ کیا وہ ان فلسفیوں کو ٹھیک مان لے؟ خدا کو تسلیم کرنے کے بجائے ان فلسفیوں کے نظریات اور عقائد کے سامنے سر جھکالے؟ مگر کیوں؟ ذرا رکیے کیونکہ سائنسدان اور فلسفی....یہ تو بذات بخود ان گنت تضادات اور الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں آپ سب سے پہلے آئن سٹائن کا وہ جواب ملاحظہ کیجئے جو اس نے اپنے ایک جرمن دوست کو "کیا آپ اتھیسٹ ہیں؟ کہ سوال پر دیا تھا، آئن سٹائن کے ایک جرمن دوست نے جب ان سے پوچھا کہ کیا آپ "اتھیسٹ" ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ "نہیں! تم مجھے صحیح طور پر اگناسٹک (Agnostic) یعنی متشکک کہہ سکتے ہو، گویا میں نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ خدا ہے اور نہ ہی یہ کہ نہیں ہے"(خدا کی دریافت از مولانا وحید الدین) برٹرینڈ رسل مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہیں وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں" جب میں اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے میری ساری زندگی ضائع ہوگئی، میں ایسی باتوں کو جاننے کی کوشش کرتا رہا جن کو جاننا ممکن ہی نہ تھا، میری سرگرمیاں بطور عادت جاری رہیں، میں بھلاوے میں پڑا رہا، میں تنہائی میں یہ چھپا نہیں پاتا کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی مجھے نیا مقصد حیات معلوم جس کے لئے میں اپنی بقیہ عمر وقف کرسکوں!" (The AutoBiopraphy of Bertrand Russel 1950; PG#395) اور ہاں اگر ہم نے چیزوں کو من وعن تسلیم کرنے کا معیار سائنس اور سائنسدان ہی طے کرلیا ہے تو جہاں آپ خدا کے منکر سائنسدانوں کی بات مانتے ہیں کیا وہیں آپ خدا کے وجود کو تسلیم کرنے والے سائنسدانوں کی بات کو کھلے ذہن اور دل وماغ سے تسلیم کریں گے؟ "جید فلسفی ملاحدہ کی تعداد دس درجن سے زیادہ نہ ہوگی لیکن ان کے مقابلے میں جو حکماء وفلاسفہ دنیا کو خدا کی جانب بلارہے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے، گریٹ ڈیزائن میں خدا وکائنات پر پندرہ بڑے بڑے حکماء کے مقالات موجود ہیں، The Evidence of God in an expanding Universe میں چالیس سائنسدانوں نے خدا کی ہستی پر دلائل پیش کیے، لندن کی رائل سوسائیٹی نے خدا پر بارہ کتابیں لکھی، اوکسفرڈ گروپ نے ضرورت مذہب پر درجنوں کتابیں شائع کیں، رائڈر اینڈ کمپنی روحانیت، خدا اور مذہب پر بارہ سو کتابیں نکال چکی ہے(الحاد مغرب اور ہم از ڈاکٹر غلام جیلانی برق)، روحانیت تو یورپ میں اب ایک مکمل سائنس کی شکل اختیار کرچکی ہے، ٹالسٹائی نے مذہب سے منحرف ہوکر دوبارہ ایمان لانے کے بعد کہا تھا "نوع انسان کسی نہ کسی ایمان کے سہارے جی رہی ہے اور اسی سے منزل کا تعین ہوتا ہے، انسان کے نفس کی گہرائیوں میں ایک لامحدود اور بے مثال خدا کا تصور موجود ہے" انگلستان کے مشہور طبیعات دان جارج ارل ڈیوس کہتے ہیں" میں مدت سے کائنات کے پیچیدہ نظام کا مطالعہ کررہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک ذرے سے لے کر آفتاب تک ہر جگہ ایک حیرت انگیز نظم ونسق پایا جاتا ہے اور یہ امر ناقابل تصور ہے کہ یہ نظم وضبط اور ترتیب بغیر کسی ناظم کے وجود میں آگئی"(خدا موجود ہے) ڈاکٹر ایبر سولڈ کہتے ہیں "اس کائنات میں نظم وترتیب اور حکمت وصناعی، یہ حیرت انگیز مظاہر کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ بے مثل خالق اور عظیم مدبر کی تخلیق ہیں، میں نے سوچا تھا سائنس بہت جلد زندگی اور عقل وشعور کے متعلق علم حاصل کرلے گی مگر میرے علم میں اضافے سے منکشف ہوا کہ انسانی علم ان ماورائی حقائق کی ابجد سے بھی واقف نہیں" اب آپ اس جدید ذہن کی قدامت پرستی پر کونسا فتوی جاری کریں گے؟ جس کا تردد اور حیرت اس بات کی واضح نشانی کہ قدیم کم عقل انسانوں نے طوفانوں، سیلابوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے خدا گھڑے لیکن ہم ان طوفانوں، سیلابوں سے نجات حاصل کرلینے اور ان کے حل تلاش کرلینے کے بعد خدا کے وجود کا انکار نہیں کرپارہے؟ اور ان سائنسدانوں کے پاس خدا کے وجود کو رد کرنے کے لئے کونسے ٹھوس ثبوت موجود ہیں؟ کہ رسل کا فلاں فلسفہ یا اس کی کیتلی؟ یا پھر بس اتنا کہ خدا نظر نہیں آتا؟ لیکن دوسری طرف یہی سائنسدان درجنوں نادیدہ حقائق پر یقین رکھتے ہیں مثلا کشش ارض، بجلی کے مثبت ومنفی ذرات، ارتقاء، روح، زمانہ مستقبل، آپ گرتے سیب سے کشش ثقل کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کو جزو ایمان بنالیتے ہیں تاہم آپ کو یہ خیال نہ آیا پھول کس نے کھلائے، پھل کس نے اگائے؟ محرک اول کون تھا؟ کائنات کا نظم ونسق کون چلارہا ہے؟ کیا مطبخ میں دھماکے سے کوئی دنیا وجود میں آسکتی ہے؟ بہرحال یہی وہ علمی تضاد ہے جس نے سائنسدانوں سے لے کر تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو خدا سے متعلق حیرت میں ڈال رکھا ہے، آپ ولیم میکبرائڈ کی حیرتناکی ملاحظہ کریں" کیا کوئی سنجیدہ شخص یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ کائنات میں یہ نظم وہدایت عناصر کی اتفاقیہ آمیزش سے پیدا ہوگئی ہے؟ کیا کوئی چشمہ اپنے بلند تر منبع پر بہہ سکتا ہے؟ دیکھا آپ نے کہ فلسفی اور سائنسدان تک خدا کی بحث کو لے کر الجھن کا شکار ہیں! جہاں سائنسدانوں کا ایک طبقہ خدا کا مخالف تو وہیں سائنسدانوں کا ایک جم غفیر خدا کی حمایت میں کھڑا ہے اب آپ کس کی سنیں گے اور کس کو مسترد کریں گے؟ لیکن اصل سوال کچھ اور ہے اور اسی سے اصل بحث شروع ہوتی ہے!"جاری ہے"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :