اے عیدپھرنہ آنا

بدھ 6 ستمبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بچپن میں جب بھی عیدکاموقع آتا۔۔ابو روزگارکی وجہ گھرسے کوسوں دورسات سمندرپارہوتے تھے لیکن ابو کی غیرموجودگی میں امی جان نے کبھی کسی چیزکی کوئی کمی نہیں ہونے دی ۔۔عیدالفطرہویاعیدقربان امی جان ہرعید پر ہم بہن بھائیوں کیلئے ہمیشہ پہلے سے ہی نئے کپڑوں۔۔جوتوں اورکھلونوں کی تیاری کرلیتی ۔۔ہماراکام صرف درزی کوکپڑوں کاناپ دیناہوتااوربازارجاکرپاؤں میں جوتے برابرکرنے ہوتے۔

۔عیدسے ایک دودن پہلے مہندی کے دوتین ڈبے بھی لائے جاتے جن کوچاندرات ہمارے ہاتھوں پرلگایاجاتا۔۔فجرکی نمازپڑھنے کے فوری بعدامی جان ہمارے سرہانے پہنچ کرجلدی اٹھو،،جلدی اٹھوعیدہے کی صدالگانے کے ساتھ ایک ایک کرکے ہمیں اٹھانے کی کوشش شروع کردیتی ۔۔آنکھیں ملتے ہوئے ہمیں خوشی خوشی سے اٹھ جاتے اوراٹھنے کے ساتھ ہی ہاتھوں سے مہندی دھونے کامشکل کام شروع کردیتے۔

(جاری ہے)

۔اس کے بعدکپڑے جوتے پہن کراپنے اپنے کھلونے اٹھاتے اورناشتہ کئے بغیرپڑوس کے گھر سے لے کرایک ایک گھرمیں عیدکاسلام کرنے کی غرض سے پورے گاؤں کاطواف شروع کردیتے۔۔عیدکاآدھادن عیدی لینے اورسلام کرنے میں گزرجاتاباقی آدھے حصے کوہم کھلونانماہتھیاروں سے اڑادیتے۔۔جب تک بچپن تھاعیدبھی ہرسال ایک نہیں دوبارآتی لیکن جب سے بچپن کازمانہ گزراہے عیدبھی گزرہی گئی ہے۔

۔بچپن سے پچپن میں داخل ہونے کے بعدعیدکاوہ مزہ تونہیں ہوتاتھالیکن پھربھی جب تک امی اورابوجان حیات تھے تب بھی عیدہمارے لئے عیدہی ہوتی تھی لیکن جب سے امی اورابوجان ہمیں چھوڑکرگئے ہیں اس کے بعدسے عیدبھی ہم سے روٹھ ہی گئی ہے ۔۔امی اورابوجان کی جدائی کے بعدعیدآنے کے بارے میں لوگوں سے سنتے توبہت ہیں لیکن اللہ گواہ ہے کہ جب سے امی اورپھرابوجان اللہ کوپیارے ہوگئے ہیں اس کے بعدسے ہم نے کسی عیدکوعیدکے روپ میں کبھی نہیں دیکھا۔

۔عیدپرلوگ اپنے چہروں پرمسکراہٹیں اوردلوں میں خوشیاں بکھیرتے ہوں گے لیکن امی اورابوجان کی یادمیں ہماری آنکھیں عیدوالے دن بھی نم ۔۔دل اداس اوروجودغم سے بھاری بھاری ہوتاہے ۔۔ بچپن کادورہاتھ سے جانے کے بعدوجود۔۔قداورقامت ہمارے ضروربڑھے لیکن امی اورابوکی جدائی کے ہاتھوں ہمارے دل چھوٹے بلکہ اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ نئے کپڑوں۔۔جوتوں اوردنیاکی ہرنعمت موجودہونے کے باوجودبھی وہ آج امی ابوکے بغیرکوئی عیدمنانے پرراضی نہیں ۔

۔ہم بڑے ہوگئے لیکن ہمارے دل ذرہ بھی بڑے نہ ہوسکے ۔۔ان دلوں میں بچوں والی ضد،رونااوردھوناآج بھی اسی طرح کوٹ کوٹ کے بھراہے۔۔جب بھی عیدآتی ہے تومیں گھربھرکی الماریاں اورسامان ٹٹول ٹٹول کردیکھناشروع کردیتاہوں کہ امی جان نے عیدکیلئے میرے نئے کپڑے کہاں رکھے ہونگے۔۔چاندرات کوجب دنیاعیدکی خوشیاں مناتے مناتے تھک ہارکرسوجاتی ہے میں تب بھی کمرے کے کسی کونے میں اس انتظارمیں بیٹھارہتاہوں کہ امی جان مہندی کاڈبہ اٹھائے کب میرے پاس آئے گی ۔

۔امی جان کے انتظارانتظارمیں میری آنکھ لگ جاتی ہے مگروہ نہیں آتی۔۔صبح جب میری آنکھ کھلتی ہے توسب سے پہلے میں اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتاہوں لیکن وہ پیلے ہونے کی بجائے سفیدہی ہوتے ہیں۔۔ ہاتھوں کی سفیدی دیکھ کرمیرادل پھٹنے لگتاہے ۔۔ پے درپے غموں کی وجہ سے روئی دانے جتنابننے والے اکھڑے ہوئے دل نے اس باربھی عیدقربان پراپنی ضداوراناکونہیں چھوڑالیکن پھربھی عیدگزرگئی مگرامی اورابوجان نہیں آئے۔

۔ہمارے لئے کسی نے کپڑے بنائے ۔۔نہ ہی کسی نے کوئی جوتے خریدے۔۔مہندی لگانے کے لئے بھی ہمارے ہاتھ عیدکی شام تک کھڑے ہی رہے ۔۔امی جان کی بے مثال محبت کودیکھتے ہوئے ہم توآج بھی بچے ہی ہیں۔۔وہ زندہ ہوتیں تووہ ہمارے ہاتھ پیلے ہونے سے پہلے عیدکی صبح کبھی نہ ہونے دیتی ۔۔مگراس کی غیرموجودگی میں ایک اورعید بھی ہمارے ارمانوں کاخون کرنے کی ہمت کرتے ہوئے ہماری امیدوں۔

۔خواہشات اورامنگوں کے اوپرسے ایف سولہ طیارے کی طرح گزرناپڑا۔۔کاش ۔۔امی اورابوجان زندہ ہوتے ۔۔اورلوگوں کی طرح ہم بھی عیدمنالیتے ۔۔لوگ ہردن کوعیدکادن بننے کی دعائیں کررہے ہیں لیکن ہم نم آنکھوں اوراداس دل کے ساتھ خاموش لفظوں میں ،،اے عیدپھرنہ آنا،،کی التجائیں کررہے ہیں ۔۔ والدین دنیاکی بہت بڑی نعمت ہے ۔۔یہ جب تک حیات ہوں توسرپرنہ سورج کی کوئی تپش لگتی ہے اورنہ ہی بارش کاکوئی قطرہ گرتاہے ۔

۔ماں باپ کی اولادسے لازوال محبت دیکھ کرتپتی دھوپ بھی سایہ دینے پرمجبورہوتا ہے ۔۔جب ماں باپ نہیں رہتے پھرپھول بھی کانٹے بن جاتے ہیں ۔۔پھرسایہ بھی دھوپ دینے لگتاہے ۔۔پھر سورج کی تپش کوبھی جسم جھلسانے کی ہمت اوربارش کے ایک ایک قطرے کوبھی ٹھنڈپہنچانے کی جرات ہوتی ہے۔۔ماں باپ کی قدروقیمت کوئی ہم جیسے بدقسمتوں سے پوچھے ۔۔جب تک ماں باپ زندہ ہوتے ہیں اس وقت تک توان کی قدروقیمت کااندازہ نہیں ہوتا۔

۔لیکن جب ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی بچھڑجاتاہے پھرغفلت کے پردے میں بندآنکھیں کھل اوراصل حقیقت کااندازہ لگ جاتاہے۔۔ اورجب یہ دونوں نہیں رہتے پھرتوزندگی کاراحت ۔۔سکون اورخوشیوں کاسلسلہ ہمیشہ کیلئے ہی ختم ہوجاتاہے ۔۔والدین زندہ ہوں توہردن عیدعیدہوتی ہے لیکن جب یہ روٹھ جاتے ہیں پھرخوشیوں بھری عیدبھی درد۔۔تکلیف اوراذیت کاباعث بنتی ہے ۔

۔ ہم میں سے اکثرلوگ والدین کاخیال نہیں رکھتے ۔۔ماں باپ کوبرابھلاکہناآج کے نوجوانوں کاخصوصی مشغلہ ہے ۔۔ماں باپ دنیاکی بڑی بہت بڑی نعمت ہے ۔۔خداراان دونوں کاقدرکیجئے۔۔ان کوکبھی اف تک بھی نہ کہیں ۔۔قدم قدم پران کے پاؤں چومے۔۔لمحہ بہ لمحہ ان کوبوسہ دیں ۔۔ان کی دعائیں سمیٹیں ۔۔ان کی بددعاؤں سے ہمیشہ بچےئے۔۔ماں باپ اپنی اولادکوکبھی بددعانہیں دیتے لیکن ان کے دل اگرکسی بچے یابچی کیلئے ذرہ بھی میلے ہوں توپھروہ زندگی بھرکبھی کامیاب نہیں ہوتے۔

۔ہم نے اس دنیامیں ماں باپ کی دل آزاری کرنے والے کئی لوگوں کوغلاظت چاٹنے اورگلی محلوں میں پاگلوں کی طرح گھومتے۔۔پھرتے اوردوڑتے ہوئے دیکھاہے ۔۔جن لوگوں نے والدین کی دعائیں لیں وہ اس دنیامیں بھی ہمیشہ کامیاب رہے اورآخرت میں بھی اللہ کی رضا سے کامیاب ہوں گے ۔۔ اس لئے سب بالخصوص آج کے نوجوان طبقے سے گزارش ہے کہ خداکے لئے دنیاکی اس عظیم قدرکی بے قدری سے ہرممکن بچےئے۔

۔جن کے والدین حیات ہیں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے ۔۔ان کی دل وجان سے خدمت کریں ۔۔آج ماں باپ ہے توآپ کی عیدہے ۔۔جس دن یہ نہ رہیں گے توپھرآپ بھی ہماری طرح عیدکی خوشیوں کوترسیں گے۔۔کیونکہ ان کے بغیراس دنیامیں پھر کوئی عیدنہیں بلکہ ان کے جانے کے بعدتوپھرعیدوالے دن کوبھی درد۔۔تکلیف۔۔مشکل اورپریشانیوں سے گزارناپڑتاہے ۔۔اللہ کریم سے دعاہے کہ میرے سمیت ان سب لوگوں کے والدین جواس دنیاسے رخصت ہوچکے ہیں ان کی مغفرت اوردرجات کوبلندفرمائے اورجن کے والدین حیات ہیں ان کے بچوں کوان کی خدمت اوران کی دعائیں لینے کی توفیق عطاء فرمائے ۔۔آمین ثم آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :