نیاپاکستان ۔۔جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری

پیر 5 فروری 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

یہ کوئی پرانے زمانے کی بات ہے ،کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک شخص کی بھینس بیماری ہوگئی۔۔جانوروں کے ہسپتال تواس وقت تھے نہیں ،وہ شخص جس کی بھینس بیماری ہوگئی تھی پڑاپریشان ہوا۔۔ لوگوں سے بڑے مشورے کئے لیکن کہیں سے کوئی تسلی بخش مشورہ اورٹوٹکہ نہیں ملا،سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ایک دوسال پہلے گاؤں کے قریب ایک شخص کی بھینس بھی اسی طرح بیمارہوگئی تھی ۔

۔یہ شخص چادرکندھے پررکھ کردوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچ گیا،اس سے کہامیری بھینس بیمارہوگئی ہے۔۔چندسال پہلے جب آپ کی بھینس بیمارہوگئی تھی آپ نے اس کوکیادیاتھا ،وہ شخص بولا،میں نے اسے نیلاتوتہ دیاتھا۔۔وہ شخص خوشی سے دوڑتے ہوئے واپس آیااورکہیں سے نیلاتوتہ لاکراپنی بھینس کوبھی دے دیا،نیلاتوتہ کھاتے ہی اس کی بھینس مرگئی۔

(جاری ہے)

۔بھینس کومرتے دیکھ کروہ دوبارہ دوڑتے ہوئے اس شخص کے پاس پہنچا۔

۔اب کی باراس کے دل کی دھڑکنیں تیزاورسانس اس کاپھولا ہواتھا۔اس شخص نے دیکھتے ہی پوچھاکیاہوا۔۔؟اس نے کہاکہ وہ میری بھینس تومرگئی،پتہ ہے اس شخص نے آگے سے کیاجواب دیا۔۔کہنے لگاکوئی بات نہیں میری بھینس بھی مرگئی تھی ،طاہرالقادری کی سیاسی بھینس توشریفوں کے طوطے کھاکربہت پہلے مرگئی تھی لیکن طاہرالقادری کے مشورے پرتحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے اپنی سیاسی بھینس کونیلاتوتہ کھلاکراس کی زندگی بھی داؤپرلگادی ہے ،بے جایوٹرن اورکسی اہم موقع ومرحلے پر غلط فیصلہ کرناکوئی عمران خان سے سیکھے۔

۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء اورمتاثرین کے لئے آوازاٹھانااچھی بات اورنیک کام لیکن سال میں 360دن کینڈامیں گزارنے والے طاہرالقادری کے سیاسی رنگ میں خودکورنگناعمران خان جیسے قومی رہنماء کوہرگززیب نہیں دیتا۔۔ایک ایسے وقت میں جب ن لیگ ہیروسے زیراورتحریک انصاف کی سیاسی بھینس خاصادودھ دینے لگی تھی طاہرالقادری کے کہنے پراپنی بھینس کونیلاتوتہ دینے کی کیاضرورت تھی ۔

متحدہ اپوزیشن کے نام پرلاہورکے ناکام شو نے سب سے زیادہ نقصان عمران خان اورپی ٹی آئی کوپہنچایا،طاہرالقادری کے لئے توکوئی مسئلہ نہیں وہ آج یہاں ہیں توکل کینڈاچلے جائیں گے۔۔آصف زرداری بھی مداریوں والے گراچھی طرح جانتے ہیں اس لئے وہ بھی اپناچورن کہیں نہ کہیں بھیج دیں گے لیکن بے چارے عمران خان کامعاملہ توسب سے الگ ہے ،وہ نئے پاکستان بنانے کے لئے نکلے ہیں اورنیاپاکستان طاہرالقادری کی امامت اورآصف زرداری کی قیادت میں کیسے بنے گا۔

۔؟اس سوال کاجواب شائدنہیں یقینناًعمران خان کے پاس بھی نہیں ہوگا،خان صاحب جوکچھ کہتے ہیں وہ سب ٹھیک نہیں۔۔اسی طرح لوگ بھی سارے غلط نہیں کہتے۔۔کل تک ہم اورلوگ جب کہتے تھے کہ عمران خان اورپرویزخٹک جس طرح خیبرپختونخواکوجنت بناکرپیش کررہے ہیں زمینی حقائق اس طرح نہیں لیکن تحریک انصاف کے جوشیلے اورجذباتی کارکن بجائے زمینی حقائق کاخودمشاہدہ کرنے کے،،تم لیگی ایجنٹ ،،تم نے بھی لفافہ مل گیاہے جیسے الزامات لگاکر ہمارے پیچھے پڑجاتے تھے۔

اب توہم نہیں دنیاچیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ عمران خان جس طرح کہہ رہے ہیں اورہوامیں دکھارہے ہیں خیبرپختونخوااس طرح نہیں۔عمران خان خیبرپختونخواپولیس کو نمبرون قراردینے کاجوسرٹیفکیٹ گلی گلی اورمحلوں محلوں میں تقسیم کرتے تھے اس کی قلعی بھی اب پوری دنیاکے سامنے کھل گئی ہے۔خیبرپختونخواپولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کھوداپہاڑنکلاچوہاوالانظارہ توسب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہے۔

مردان میں اسماء کے قاتلوں کی عدم گرفتاری نے توکے پی کے پولیس کی ناقص کارکردگی پرسپریم کورٹ کوبھی برہم کردیا۔اسی وجہ سے توچیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ خیبرپختونخواپولیس کے بارے میں توبڑاسناتھالیکن اس کی کارکردگی توکچھ نہیں۔۔عمران خان اورتحریک انصاف والوں کو ہماری زبانوں پریقین نہیں اب توکم ازکم انہیں اپنے گریبانوں میں ضرورجھانکناچاہئے۔

۔جوپولیس کئی ماہ میں ڈی آئی خان واقعہ کے مرکزی ملزم کوگرفتارنہیں کرسکی ۔۔مردان کی اسماء کاظالم قاتل جس پولیس کی گرفت میں نہ آسکا۔۔کوہاٹ کی عاصمہ کودن دیہاڑے قبرمیں اتارنے والادرندہ جس پولیس کے ہاتھ سے نکلا۔۔اس پولیس کوکسی بھی طرح نمبرون قرارنہیں دیاجاسکتا۔۔ اپنی چیزہرشخص کونمبرون نظرآتی ہے لیکن حقیقت میں ایسابالکل نہیں ہوتا۔

۔ماناکہ عمران خان کے ہاں نہ صرف کے پی کے پولیس بلکہ خیبرپختونخواحکومت بھی نمبرون ہوگی لیکن عوام کے ہاں ابھی تک ایسانہیں۔۔ ہم مانتے ہیں کہ عمران خان نے خیبرپختونخوامیں نظام کی تبدیلی کے لئے اپنے طورپرہرکوشش کی ۔۔ہرقدم اٹھایا۔نظام میں بہتری بھی کافی آئی لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ خیبرپختونخواکوماڈل اورمثال کے طورپرہرگزپیش نہیں کیاجاسکتا۔

۔خیبرپختونخواکے ذرے ذرے سے انتقامی سیاست اورسیاسی مداخلت کی بوآج بھی آرہی ہے۔۔پسندوناپسندکاکھیل بھی اسی طرح جاری ہے۔۔امیروں کے لئے انڈہ اورغریبوں کے لئے ڈنڈاآج بھی ہرجگہ تیارہے،پشاورسے کوہستان تک آج بھی کسی سرکاری محکمے اورادارے میں ایک غریب کوگھاس تک نہیں ڈالاجاتا،سکولوں کے پرنسپلز،تھانوں کے ایس ایچ اوزاوردیگرسرکاری اداروں کے افسروں کے آج بھی سیاسیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ،ڈاکٹر،ٹیچر،انجینئر،پولیس سمیت بڑے بڑے افسرآج بھی نہ صرف کسی ایم این اے اورایم پی اے کے سامنے انتہائی ادب واحترام کے ساتھ دوزانوں بیٹھتے ہیں بلکہ،، یس سر،،کے الفاظ کاوردبھی جاری رکھتے ہیں ۔

عمران خان اورپرویزخٹک کی حدتک توتمام سرکاری محکموں اوراداروں سے سیاسی مداخلت کاخاتمہ ہوگیاہے لیکن درحقیقت تمام نہیں تواکثرسرکاری محکموں اوراداروں میں سیاسی مداخلت کے جراثیم آج بھی پانی میں مچھلی کی طرح تیررہے ہیں ،خیبرپختونخواکے عوام نے تو2013کے الیکشن میں عمران خان کے ساتھ انصاف کیالیکن تحریک انصاف کے چےئرمین نے وزیراعظم بننے کے چکرمیں خیبرپختونخواکے عوام کونظراندازکرکے نہ صرف دلوں میں نئے پاکستان بننے کی امیدسجانے والوں کے ارمان خاک میں ملائے بلکہ اپنے ووٹروں اورسپورٹروں کے ساتھ بے انصافی کی بھی انتہاء کی ۔

۔ہماری عرض توویسے بھی شکایت شمارکی جاتی ہے لیکن پھربھی ہم ہمدرددانہ طورپرمشورہ دیتے ہیں کہ عمران خان خیالی پلاؤاوردن کی روشنی میں خواب دیکھنے کے چکرسے نکل کرزمینی حقائق کاایک بارضروراپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں ۔وہ رات کی کسی تاریکی میں خیبرپختونخواکے کسی شہر،تھانے ،کچہری ،ہسپتال اوربازارکاخفیہ دورہ کریں ،وہ مالشی اورپالشیوں سے ہٹ کر صوبے کے کسی ریڑھی بان،کسی چابڑی فروش اوردیہاڑی لگانے والے کسی مزدورسے خیبرپختونخوامیں آنے والی تبدیلی کی حقیقت پوچھیں ۔

عمران خان صوبے کی کسی مظلوم عاصمہ اوراسماء کے دروازے پردستک دے کران سے نمبرون پولیس کے بارے میں پوچھیں ،اگر کسی ریڑھی بان، چابڑی فروش، مزدوراورکسی مظلوم نے خیبرپختونخواکومثالی قراردے دیاتوتحریک انصاف کے کارکنوں سے پہلے ،،عمران خان اورپی ٹی آئی زندہ بادکانعرہ ہم لگائیں گے لیکن کے پی کے کامثالی ہوناممکن نہیں ۔۔جس صوبے میں لوگ روزگاراور انصاف کے لئے دربدرہوں،جہاں لوٹ مارکرپشن اوراقرباء پروری کابازارآج بھی گرم ہوں ،جہاں سیاسی اورذاتی انتقام کی آگ بجھانے کے لئے آج بھی جھوٹے اوربوگس مقدمات کاسہارالیاجاتاہو،جہاں کسی کی عاصمہ محفوظ ہونہ کسی کی اسماء۔

وہاں نہ تبدیلی آسکتی ہے اورنہ ہی ایسے صوبے کومثالی قراردیاجاسکتاہے۔ماناکہ خیبرپختونخواکانظام پنجاب ،سند ھ اوربلوچستان سے ایک نہیں دس درجے بہترہوگالیکن انتہائی معذرت کے ساتھ خیبرپختونخواپی ٹی آئی کی ساڑھے چارسالہ اقتدارکے بعدآج بھی مثالی نہیں ۔کیونکہ جس نگری میں لوگ حکمرانوں سے جان چھڑانے کی دعائیں مانگ رہے ہوں اس کوماڈل کے طورپرہرگزپیش نہیں کیاجاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :