ہم کیاجواب دیں گے۔؟

پیر 2 جولائی 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

گردوں کے عارضے نے انہیں بستر سے لگادیاتھا،بیماری کی شدت ،درد اورتکلیف کے باعث چند سالوں میں ان کاتوانا اورصحت مند جسم سوکھ کرماچس کی تیلی جیساہوگیاتھا۔ اس کے درد سے کراہتے جسم کو دیکھ کرپھر کوئی بھی دل قرار پکڑتا نہ ہی کوئی آنکھ آنسوبہائے بغیررہتی،دن رات مسلسل ناقابل برداشت درد اورتکالیف سہتے سہتے وہ زندگی سے تنگ آگئے تھے لیکن اپنے معصوم اورپھول جیسے بچوں کی خاطر وہ درد ،تکلیف ،غم اورپریشانیوں سے بھری اسی زندگی کی بقاء کیلئے آخری وقت تک موت سے جنگ لڑتے رہے۔

وہ زندگی جواس کیلئے ایک آزمائش بن گئی تھی اس کوموت کے منہ میں جانے سے بچانے کیلئے وہ ایک مجاہد اورکسی عظیم سپہ سالار کی طرح اگلے محاذ پرنہ صرف کھڑے رہے بلکہ آخردم تک ڈٹے بھی رہے ،موت کوشکست دینے کیلئے انہوں نے سوات،پشاور اورکراچی تک کوئی ہسپتال چھوڑانہ ہی دعاؤں اوردواؤں کاسلسلہ ایک لمحے کیلئے بھی توڑا۔

(جاری ہے)

زندگی کی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے وہ مفلسی کے شکنجے میں مکمل طورپر جھکڑ چکے تھے لیکن پھر بھی وہ اپنے رحیم وکریم رب سے ذرہ بھی کوئی مایوس اورزندگی سے ناامیدنہیں تھے۔

اس کاتین سالہ بچہ جب بھی اس کی گود میں سررکھ کرکہتا۔،، پاپا،پاپا،، مجھے کھلونا لیکردیں نا۔تووہ ہاتھ میں پکڑے رومال سے آنسوؤں کوپونچھتے ہوئے نم آنکھوں سے اس کے بدقسمت سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ،عبدالرحمن مجھے ٹھیک ہونے دیں،میں ٹھیک ہوکر پھرآپ کوبہت سارے کھلونے لیکردوں گا ۔میں نے انہیں آخری بار عید سے ایک دن پہلے ایبٹ آباد میں دیکھاتھا ،وہ ڈائیلاسز کیلئے ایبٹ آبادکمپلیکس آئے تھے ۔

بچے بھی ساتھ تھے ۔میں اس منظر کرکیسے بھولوں جب وہ لاٹھی کے سہارے ایک ایک قدم اٹھا رہے تھے اوراس کے معصوم بچے چوزوں کی طرح پاپا،پاپاکہہ کران کے پیچھے چلتے جارہے تھے ۔دنیا ومافیھا سے بے خبر وہ بچے سوچ اورسمجھ رہے تھے کہ ہم اسی طرح پایا کے قدم سے قدم ملا کر بازار،پارک اوردکان جائیں گے ،پاپا ہمارے لئے کھلونے خریدیں گے ،پاپڑ اورٹافیاں لیکردیں گے ،ہم کھیلیں گے اورپاپادیکھیں گے ۔

ہائے افسوس۔ان معصوم بچوں کوکیاان کی مما کوبھی نہیں پتہ تھا کہ ان کاواحد سہارا کچھ دن بعدہی ان کوآدھے راستے میں چھوڑ کرہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور بہت دور چلاجائے گا۔میرے آبائی گاؤں جوز کے رہائشی قاری ثاقب نہ صرف اپنے معصوم بچوں بلکہ ہم سب کوچھوڑ کردوربہت دور چلے گئے ۔گردوں کے علاج کیلئے وہ سوات گئے ،واپس آئے ،کراچی گئے پھر واپس آئے۔

پھر پشاور گئے وہاں سے بھی واپس آئے لیکن اب کی بار وہ جہاں گئے اب وہاں سے ان کاواپس آنا ممکن ہی نہیں ۔راہیں ہم بھی دیکھیں گے ،انتظاربھی کرینگے۔ ان کے معصوم بچے بھی ہرصبح آنکھیں ملتے ہوئے پاپا،پاپا کہہ کر گھر کے کونے کونے چھان مارکر انہیں ڈھونڈیں گے لیکن اب وہ نہ ہمیں کہیں نظرآئیں گے اورنہ ہی اپنے معصوم بچوں کوڈھونڈنے سے کبھی ملیں گے ۔

قاری ثاقب جوکئی سالوں سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔عید کے چند روز بعد جب دنیا عید کی خوشیاں منانے میں مگن اوربچے کھیل کود میں مست تھے وہ ہمیں اوراپنے معصوم بچوں کوسوگوار چھوڑ کردارفانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے ۔یہ دنیا فانی کے ساتھ ادھوری بھی ہے ۔ یہاں سے جانے والوں کی خواہشات پوری ہوئیں نہ ہی پیچھے رہ جانے والوں کے ارمان پورے ہوسکے ۔

یہاں انسان سوچتا کچھ اورہے مگراس کے ساتھ ہوتا کچھ اورہے ۔قاری ثاقب کے معاملے میں بھی ان کے لواحقین اورمعصوم بچوں کے ساتھ ایساہی کچھ ہوا۔گردوں کاعارضہ لاحق ہونے کے بعد روزانہ کے ڈائیلاسز اورسرکاری ہسپتالوں کے دھکوں اوروحشی ملازمین کے جھٹکوں نے جب ان کوتھکا دیاتوان کے دلوں میں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں ان کے علاج معالجے کیلئے کسی غیبی سبب کی خواہش پید اہوئی ۔

وہ خواہش توبحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے پوری کردی لیکن علاج کی خواہش کے بعد پھر ایک ایسی خواہش ادھوری رہ گئی جواب قیامت تک بھی پوری نہیں ہوسکے گی ۔جب قاری ثاقب تھے توپرائیویٹ علاج کاکوئی سبب نہیں تھا لیکن جب ملک ریاض کی شکل میں پرائیویٹ علاج کاسبب بنا توپھر قاری ثاقب نہیں رہے ۔کاش ملک ریاض کے خرچے پرقاری ثاقب کاکامیاب علاج ہوتا۔

یہ وہ خواہش اورارمان ہے جس نے قاری ثاقب کے غریب اوربدقسمت لواحقین کے ساتھ ہمیں بھی دکھی اوربے چین کردیا ہے لیکن قدرت کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔اللہ کریم جوکرتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی بہتری ضرورہوتی ہے ۔قاری ثاقب کی زندگی پوری ہوگئی تھی ۔انہوں نے ہرحال میں جاناتھا۔جانے والوں کوبھلا کون روک سکتا ہے ۔

پھر دنیاجہان کامالک جن کوبلائے ان کوایک لمحے کیلئے بھی روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ قاری ثاقب جب تک زندہ رہے دنیا میں بھی وہ قال اللہ اورقال رسول اللہ کی صدائیں بلند کرکے اللہ کے مہمان رہے اوراب وہاں بھی اللہ کے مہمان بن کرگئے ہوں گے کیونکہ انہوں نے اکثرنہیں بلکہ اپنی ساری زندگی بچوں کوقرآن کی تعلیم دیکراللہ کے دین کی اشاعت وسربلندی کیلئے گزاری۔

قبر کی تاریک راتوں میں جب فرشتے سوال وجواب کیلئے حاضر ہوئے ہونگے تویہی قرآن جس کوقاری ثاقب نے زندگی بھر سینے سے لگائے رکھا قاری ثاقب کاترجمان بناہواہوگا۔ روزمحشر بھی جب ہرانسان تن تنہا حساب دینے کیلئے قطار میں کھڑا ہوگا وہاں بھی انشاء اللہ یہی قرآن قاری ثاقب کیلئے نجات اورکامیابی کاباعث بنے گا۔ قاری ثاقب توخوش قسمت تھے کہ قرآن کادامن تھام کروہ اس بے وفا دنیا سے گئے ۔

معلوم نہیں ہمارا انجام کیاہوگا۔۔؟ قاری ثاقب کے معاملے میں ملک ریاض نے اپناحق اداکردیا لیکن ہم یہاں بھی ملزم ومجرم ٹھہرے ۔ملک ریاض انسانیت بچانے کی خاطر جس طرح قاری ثاقب کے علاج کیلئے فوری طورپرآگے بڑھے ہم بھی اگر اس معاملے میں بروقت آگے بڑھتے تویقینا انسانیت بچ سکتی تھی مگر افسوس ہم اپنے کاموں میں لگے رہے اورہماری وجہ سے قاری ثاقب درد سے کراہتے اورغربت کاتماشابنتے رہے ۔

ہم نہ صرف انسانیت کے مجرم ہیں بلکہ قاری ثاقب کے ان چھوٹے چھوٹے اورمعصوم بچوں کے بھی مجرم ہیں جن کے معصوم سروں پرہماری وجہ سے اب کوئی سایہ باقی نہیں رہا ۔قاری ثاقب کاتین سالہ بچہ عبدالرحمن ہی اگر ہماراگریبان پکڑ کرپوچھے کہ میراپاپا غربت کی وجہ سے کئی سال تک درد اورتکلیف سے کراہتا رہا اورتم سوئے رہے توبتاؤ ہم اس کوکیاجواب دیں گے ۔

۔؟ہم تواتنے بے حس اورسنگدل ہیں کہ ہم سالوں سے چارپائی پرلیٹے قاری ثاقب کیلئے کچھ نہ کرسکے اب ایک اللہ کے آسرے پربے سروسامانی اورغم والم کے عالم میں رہنے والے ان کے چھوٹے چھوٹے اورمعصوم بچوں کیلئے کیاکرلیں گے ۔۔؟اللہ کرے کہ قاری ثاقب کے معصوم بچوں کی غربت کے ہاتھوں بھوک وافلاس کی ایک جھلک اوررونے کی کوئی ایک چیخ پھر سے کسی نہ کسی طرح ملک ریاض تک پہنچے تاکہ انسانیت اب کی بارمرنے سے بچ سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :