آؤاپنامحاسبہ کریں

بدھ 12 دسمبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ہمار ے جیسے خودغرض اورمفادات کے گردگھومنے والے توپہلے ہی بیگانوں کے ساتھ اپنوں سے دورتھے لیکن نفسانفسی کے اس دورنے تواچھے بھلے ،مخلص ،وفاداراورشریف لوگوں کوبھی پریشانیوں،مسائل ،مصائب اورمصروفیات میں جکڑکراپنوں سے دوربلکہ بہت دورکردیاہے۔حقیقت تویہ ہے کہ روٹی شوٹی کی فکرمیںآ ج بھائی کوبھائی کابھی پتہ نہیں۔مہنگائی ،غربت،بیروزگاری اوردیگردنیاوی مسائل،پریشانیوں اورتکالیف کی وجہ سے آج تقریباًمعاشرے کاہرشخص ایک دونہیں باربار نفسانفسی کے مراحل سے گزررہاہے ۔

وہ بھی توایک وقت تھاجب خاندان کاایک شخص کماتاتھااوربہت سارے کھاتے تھے،وہ بھی توہمارے جیسے لوگ ہی تھے جودنیاجہان کے سارے کام کاج کرکے بھی اپنے کیابیگانوں سے بھی ایک لمحے کے لئے کبھی دوراورجدانہیں ہوئے۔

(جاری ہے)

وہ لوگ کھیتی باڑی کرکے بھی بادشاہوں جیسی زندگی گزارگئے مگرآج لاکھوں کی نوکریاں ،کروڑوں اوراربوں کاکاروبارکرکے بھی ہمیں ایک لمحے کی چین وسکون نصیب نہیں۔

ہمیں اچھی طرح یادہے،گاؤں ،علاقے اورشہرکے اکثرلوگ گھروں میں ہوتے تھے،کسی گاؤں ،علاقے اورشہرکا کوئی اکادکاشخص ہی گھر،گاؤں ،علاقے اورشہرسے باہرنوکری وملازمت کرتاتھا مگراس کے باوجودہرگاؤں،علاقے ،شہراورگھرکانظام احسن طریقے سے چلتاتھا۔کسی خاندان کاکوئی فردنوکری وملازمت پرہوتایانہیں ،پھربھی ان کاگھریلونظام تواترسے چلتااورچولہاجلتارہتامگرآج ۔

۔؟مگرآج ایسانہیں ۔گھرکانظام اورچولہے کاجلناہم نے نوکری اورملازمت کے ساتھ باندھ لیاہے۔نوکری ہوگی توگھرکانظام چلے گاورنہ چولہاٹھنڈاہی رہے گاحالانکہ رزق دینے کاوعدہ بہت پہلے ہی اس عظیم رب نے کیاہے جورب اس پورے نظام کومعلوم نہیں کب سے بغیرکسی وقفے کے چلارہے ہیں ۔جس رب نے رزق دینے کاوعدہ کیاہے اس رب کے خزانوں میں توآج تک کوئی کمی نہیں آئی لیکن ہمارے اعمال،افعال اورکردارمیں ماضی کے لوگوں اوراپنے بڑوں کے مقابلے میں حدسے بھی زیادہ تبدیلی آئی ہے۔

ہمارے انہی بدلتے رویوں،نفسانفسی اوردلوں میں چھپے بغض،حسد،کینہ اوردین سے دوری نے آج ہمیں فقروفاقوں پرمجبورکردیاہے۔ اللہ سے ہونے اورمخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کایقین دل میں نہ ہونے کی وجہ سے آج ہم دنیاوی ضروریات اورپیٹ کی پوچاکرنے کی خاطرنہ صرف دردرکی خاک چھان رہے ہیں بلکہ اسی وجہ سے ہرجگہ اورمقام پرذلیل اوررسوابھی ہورہے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ اللہ سے سب کچھ ہونے اورمخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کایقین جب دل میں آجائے توپھرانسان کی حقیقی کامیابی اورکامرانی کاسفرشروع ہوجاتاہے۔نام کے توہم سب مسلمان ہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ہمارے اکثر اعمال،افعال اورکردار مسلمانی والے نہیں ۔حقوق اللہ تودورآج ہم حقوق العبادکوبھی سرے سے ہی بھول گئے ہیں ۔اپنی ذات اورمفادکے علاوہ ہمیں کسی کی کوئی فکرہی نہیں۔

نہ صرف ہرمسلمان بلکہ ہرانسان کے ساتھ ہمیں حسن سلوک کادرس اورحکم دیاگیالیکن کہاں حسن سلوک اورکہاں ہم۔۔؟گائے ،بکری ،بھینس ،بیل ،مرغی اوربچوں کی وجہ سے پڑوسیوں کودن میں تارے اوررات کوجیل وتھانوں کے انگارے دکھاکرہمیں یہ یادنہیں کہ ان پڑوسیوں کے بھی ہمارے اوپرایک دونہیں بہت سارے حقوق ہیں ۔ماں ،باپ،بہن ،بھائی اورعزیزواقارب جن کے ساتھ آج ہم رشتے ناطے توڑنے کے راستے تلاش کررہے ہیں کیاماں ،باپ،بہن ،بھائی اورعزیزواقارب کاہمارے اوپرکوئی حق نہیں ۔

۔؟اس دنیامیں آنے والاہرشخص اپنارزق ہی کھاتاہے، اللہ انسان کی پیدائش سے پہلے اس کے رزق کابندوبست کردیتاہے۔کسی کورزق دینااگرہمارے ہاتھ میں ہوتاتوہم اپنے علاوہ سب کوبھوک سے ہی ماردیتے یہ تواس رحیم وکریم رب کاشکرہے کہ اس نے یہ کام کسی انسان کے سپردنہیں کیا۔گھرمیں غلطی سے اگرکوئی مہمان آجائے توہمارے ماتھوں پرفوراًبارہ بج جاتے ہیں ۔

حالانکہ گھرآنے والاہرمہمان اپنارزق ساتھ لے کرآتاہے۔کہتے ہیں ۔ایک صاحب کی کہیں اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی۔ ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کا مہمان آ گیا۔ خاوند نے اسے بیٹھک میں بٹھا دیااور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لئے کھانا بنا۔ وہ غصے میں تھی۔ کہنے لگی تمہارے لئے کھانا ہے نہ تمہارے مہمان کے لئے۔

وہ بڑا پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری اپنی ہے،اگر رشتہ دار کو پتہ چل گیا تو خواہ مخواہ کی باتیں ہوں گی۔لہٰذا خاموشی سے آکر مہمان کے پاس بیٹھ گیا۔اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے ہیں،خاندان والی بات ہے،میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لئے کہہ دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی طبیعت خراب ہے لہٰذا آپ ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے۔

انہوں نے کہا بہت اچھا،جتنے آدمیوں کا کہیں، کھانا بنا دیتے ہیں۔وہ مطمئن ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی۔تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہاذرا ٹھنڈا پانی تولا دیجئے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو۔

کہنے لگا کیا بات ہے۔۔؟ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔کہنے لگی۔ بس مجھے معاف کر دیں۔وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے۔اس بے چارے نے دل میں سوچا ہوگا کہ میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بتا تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو۔۔؟ اس نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو بات سناؤں گی۔خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف کردیا ہے۔

کہنے لگی کہ جب آپ نے آکر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے،چلو چھٹی کرو تو آپ چلے گئے۔مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے اور یہ مہمان رشتہ دار ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے۔چنانچہ میں اٹھی کہ کھانا بناتی ہوں۔ جب میں کچن(باروچی خانہ)میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آٹا نکال رہا ہے۔

میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی۔ وہ مجھے کہنے لگا۔ اے خاتون!پریشان نہ ہو۔ یہ تمہارے مہمان کا حصہ تھا جو تمہارے آٹے میں شامل تھا۔اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے وہی آٹا لینے کے لئے آیا ہوں۔مہمان بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالی اس کا رزق پہلے بھیج دیتے ہیں۔افسوس یہ حقیقت اورسچائی جاننے کے باوجودکہ اتحادواتفاق اوراللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں برکت ہی برکت ہے۔

آج مہمان تودور ہمارے دلوں اورگھروں میں ماں باپ اوربہن بھائیوں کے لئے بھی جگہ نہیں جن کے حقوق ہم پرفرض اورقرض ہیں۔ قارون والی سوچ نے آج ہمیں اس نہج پرپہنچادیاہے۔جس کی وجہ سے سب کچھ ملنے کے باوجودبھی ہمارے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہوتا۔آےئے ذرہ اپنامحاسبہ کرکے بغض،حسد اورکینہ کے اس دلدل اورکیچڑسے کسی نہ کسی طرح نکلنے کی کوشش کریں ورنہ پھرسب کچھ ہونے کے باوجودہمیں بھوک وافلاس سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :