تندرستی ہزار نعمت ھے

پیر 21 ستمبر 2020

 Uzma Chaudhry

عظمی چوہدری

بچپن سے لے کر بلو غت تک جو بھی بیماری آئ مجھے ان کی تکلیف کی آگاھی کا احساس تو  دور یہ تک بھی یاد  نھی کہ کبھی دل و دماغ اتنے بھی الجھے تھے کہ زندگی بری لگنے لگے اور ہر چیز سے دل اکتا گیا ھو البتہ میرے والدین کو خوب جانکاری ہو گی اور یاد تو اکثر ہی کرواتےہیں ک انہوں نے کتنے مشکلوں سے ہمارے اوپر ہونے والے ہر وار کا مقابلہ دلیری سے کیا اور کبھی بھی نھی گبھراے.
یادوں کے پنوں میں چلی جاوں تو کچھ ہلکے سے یاد پڑتا ھےکہ اگر کبھی بیمار ھو جاتے تو خدا کا شکر کرتے کیونکہ والدین بہت زیادہ لاڈ پیار کرتے امی بار بار پوچھتی کہ کیا کھانا ھے بہن بھاءیوں میں بھی امتیاز ی حیثیت کے حامل ھو جاتے اورسب سے بڑھ کر جو خوشی ملتی وہ یہ کہ سکول سے بھی چھٹی مل جاتی مختصر یہ کہ بیماری کو نعمت کی طرح مانگتے رہتے.
یہ تو بچپن کی بیماری کی سنائ اب تو جوان ھو گے اب تو ہلکی سی خارش کیا آلگی دن کا چین رات کا سکون اڑ گیا بیماری لگی تو بس موبائل پکڑ کے بیٹھ گے انٹرنیٹ کھول کے سارا دن سرچ کرنے لگ گے کہ لگی تو کیسے? کیو ں لگی ?کیسے جاےگی ?کیا کروں وغیرہ وغیرہ ِ
بات ھو رہی ھے کہ تندر وستی ہزار نعمت ھے سننے میں جب بھی آیا کبھی غور نھی کیاامی اکثرثناء کو سویرے جب بھی سکول کے لیے وہ تیار ھوتی کہتی شکل سے بھلا ھو تو کیا ضرورت بننے سنورنے کی  اور وہ ہر بار کہتی ھم ماڈرن زمانے میں رھتے ھیں امی جان آج کل انسان سے زیادہ لوگ کپڑوں کو اور مصنوعی چیزوں کو دیکھتے ھیں اور اس کے مطابق ھی عز ت اور قدر کرتے ھیں شکل بری ہو  یا بھلی ,میک اپ کی چیزوں ںسے ھی ساری رونق ھے  ِامی جان ہنستی اور کہتی اگر کسی بیمار کو اچھےکپڑےپہنا کے بٹھا دو تو کچھ دیر سوچنے کے بعد ثناء نے بولا تب بھی لوگ یھی کہیں گے کہ بھت اچھے گھر سے ھے بیمار تو لگتا ھی نہیں اور خود پہ توجہ سے بیماری کی کیا مجال کہ قریب بھی بھٹکے ِ
وقت ک ورق الٹتے رہے ثناء اپنی ساری تنخواہ اپنے آپ کو سنوارنے میں لگا دیتی ابو اور بھائ اچھا کما لیتے اس لیے اسےکبھی احساس ھی نہیں ھوا کہ وہ مصنوعی دنیا کی کچھ زیادہ عادی ہو چکی ھےِ ِ
بہرحال وقت نے پلٹا کھایا ایک دن وہ جب سکول سے گھر کی طرف جا رہی تھی تو عام دنوں کی نسبت کافی تھکی ھوی تھی گھر پہنچتے ھی سو گئ امی نے کھانے کے لیے بلایا تو جواب نہ پا کر کمرے کی طرف لپکی دیکھتی کیا ھیں کہ ثناء کو بھت تیز بخار ھے اور وہ کپکپا رہی ہے کچھ دیر دیسی ٹوٹکوں سے کام چلایا مرچی واری نظر کے دھاگے جلاے چھوٹی بہن نے پٹیاں رکھی لیکن سب بے سود آخر ہسپتال کے لیے تیاری پکڑی گئ امی بھائ سب ساتھ چل پڑے راستے میں ایک مشھور ڈاکٹر کے کلینک پر جانے کا فیصلہ ھوا کیونکہ سرکاری ہسپتالوں کے نام سے ہی دل ھچکولے کھانے لگتا ھے ِ وھاں بس رات کو میڈیکل سٹوڈنٹ کے بے سود مشورے اور رٹا ماری دوائ کے ایک پرچے کے علاوہ کچھ نہیں ملتا جو بس سرسری آرام بھی قسمت سے دیتی ھے ِ
ڈاکٹر نے بغیر کوئ ٹیسٹ کرواے بیماری کو میعادی بخار کا نام دے کر واپس کر دیا اور ہدایت دی کہ ایک ہفتہ دوائ کے ساتھ آرام کرے اور کھانے پینے میں احتیاط کی جاے انشاءاللہ آرام ھو جاے گا ِایک ھفتہ گزر گیا لیکن ثناء کی طبیعت میں کوئ فرق نہ آیا اسے شدید بخار نے جکڑا ھوا تھا وقتی گولی کھانے سے کچھ دیر ٹھیک ھو جاتا لیکن ایک گھنٹے بعد کپکپی طاری ہو جاتی اور ساتھ جو کچھ بھی کھانے کے لیے دیا جاتا الٹی ہو جاتی ایک ھفتے کی کمزوری اور بیماری نے اسے مکمل لاغر کر دیا تھا اب خود سے پانی بھی نھی پیا جاتا چھوٹی بہن سے بات کرتے ہوے ثناء کی آنکھوں سے آنسو زارو قطار ٹپکنے لگے پھر اس کی یہ حالت دیکھ کر سب تسلی دیتے اور وہ پرانے دنوں کی رنگینیوں کے ساے میں خود کو حوصلہ دیتے ھوے لیٹے رہتی اور صحتیابی کے لیے دعا کرتی رہتی ِ
حالت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی دس ڈاکٹرز نے چیک اپ کیا ہر جگہ سے ٹیسٹ کرواے گے لیکن سب بے سود ڈاکٹر اپنی اپنی راے دیتے رہے کوی کہتا گردے خراب ھو گے ھیں کسی نے بخار کسی نے گلے کے انفیکشن کا  بولا دواءوں کا ڈھیر لگ گیا ِ
بیماری کو ایک ماہ گزر گیا ھزاروں کا خرچ ہو گیا لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہ ھو سکی ِایک ماہ بعد ثناء کے سکول سے بھی اسے فارغ کر دیا گیا لیکن یہ یقین دہانی کروائ گئ کہ جب وہ بالکل ٹھیک ھو جاے تو دوبارہ سے آ سکتی ھے ِ
امی کی وہ بات کہ بیمار کو اگر اچھے برینڈ کے کپڑے پہنا بھی دو تو وہ کہلاے گا لاچار بیمار ھی نہ کہ اچھےگھر کا بیمار اب رہ رہ کہ سمجھ آ رہی تھی ثناء کو کہ جان ھے تو جہان ھے اور نمود و نمائش تو سب بے کار ھے آج صحت نہی تو اچھے کپڑےکیا اب تو اگر اسکا منہ دھلوایا جاتا تب بھی اسے کپکپی طاری ھو جاتی اور دس دن بعد بھی اسکے کپڑے مشکل سے بدلے جاتےِ ِ
ڈاکٹروں کے پاس چکر جاری تھے کرتے کرتے لگبگ تین ماہ ہو چکے تھے بس جب الله کی طرف سے شفا کا وقت ہو تو کوی نیم حکیم ہی وسیلہ بن جاتا ہے اسکو  اسکے ابا کے کسی بھلے دوست نے مایا ناز شہر کے سب سے اچھے سپیشلسٹ  کا بتایا ساری رپورٹز ہمراہ لی اور  ڈاکٹر نور علی کے پاس لے جایا گیا
جتنا اچھا سنا تھا اس سے زیادہ اچھا پایا ڈاکٹر صاحب بچی تین ماہ سے ابو جیسے بولے ڈاکٹر نے اشارے سے چپ کروا دیا اور بولے مریض خود بتاے کہ کیا ہوا کیا بیتی اب کیسا ھے پھر ثناء سے ساری کیفیت جاننے کے بعد ساری رپورٹ کو از سر نو جانچا اور اس نتیجے پہ پہنچا کہ انفیکشن سے گلہ کان شدید متاثر ہوے ہیں اور دوای اثر نہیں کر پا رہی انجیکشن سے اس بیماری کا زور ٹوٹے گا ثناء کو انجیکشن لگاے گے اور وہ جلد ہی صحت یاب ہو گئ زندگی معمول پر آ گئ لیکن اسکی بیماری نے اسے بہت تبدیل کر دیا اب اس نے فضول خرچی ترک کر دی ایک ماہ کے بعد اس نے تنخواہ امی کے ہاتھ تھمائ تو امی نے  سوالیہ نظر وں سے اسے دیکھا تو وہ بولی یہ رکھ لیں میرے علاج پہ ابو کا کافی خرچہ ھو گیا ہے ِامی جان مسکرا کر بولی خرچے ہوتے رہتے ہیں اچھے سے کپڑے بنوا لو نا تو ثناء نے ایک لمبی سانس لی اور چارپائ پر دراز ہو گئ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کی امی ادھر ہی کھڑی ھیں اور اسے اب بھی سوالیہ نظروں سے تاک رہی ھیں تو اس نے امی کی مٹھی کو دباتے ہوے بولا میرے پاس اتنا کچھ جمع ھے کہ اگر اس سال  کچھ بھی نہ لوں تو بھی کافی ھےِِِ ِبہرحال امی نے پیسے رکھ لیےاور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کے اسکی صحت کے لیے دعا کرتے کرتے کچن میں چلی گئ ِ
اگلے دن سکول میں فنکشن کی باتیں چلنے لگی سکول کی انتظامیہ نے سب اساتزہ کو فنکشن کی تقریب کے ایجنڈے پر بلایا اور سب کو ڈیوٹی دیتے ہوے ثناء کونظر انداز کر دیا وہ بہت پریشان ہوئ کہ ہمیشہ سے ان کاموں میں پیش پیش رہنے والی ثناء کو کیوں کر پوچھا نہیں گیا آخر اس سے رہا نہ گیا تو اس نے اپنی ساتھی استانی سے شکایت کر ڈالی جواب میں اسے بتایا گیا کہ اسکی صحت کو دیکھتے ہوے انتظامیہ نے اسکا نام شامل نہیں کیا اور ساتھی استانیوں نے بھی اسے بیمار قرار دے کہ کہ دیا کہ تمہارے لیے اتنا تھکنا ٹھیک نہیں وہ گھر آئ اور زارو قطار رونے لگی جب امی نے وجہ جانی تو اسکو یہی مشورہ دیا اور اسکو کمرے کی طرف کھینچتے ہوے بولی بوجھو تو بتاو ہم آج بازار سے کیا لاے اتنے میں چھوٹی بہن بھی آ کھڑی ہوئ اور دونوں بوجھنے کا اشارہ کرنے لگیں ثناء نے جواب نہ دیا اور بولی کیا ہے امی بتا بھی دیں اتنے میں چھوٹی نے جھٹ سے لفافے کو کھولا اور بولی ٹن ٹن یہ دیکھو کتنے پیارے کپڑے لائ ہیں امی ,کپڑے واقعی بہت پیارے تھے ثناء جو کبھی کپڑوں کو دیکھ کہ اچھل پڑتی آج کوئ رد عمل نہ ظاہر کیا تو امی جان بولی برینڈ سےلا ئ ہو جی بہت مہنگے بھی ہیں ِ
کچھ دیر امی کو تاکنے کے بعدثناء کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے اور ہچکی بھرتے ہوے اس نے لمبا سانس لیا اور بولی برینڈ ڈ کپڑے جوتے اور میک اپ کوئ معنی نہیں رکھتے امی جان ؛ بس صحت ہے تو سب کچھ ہے ہزار بار کہتی ہوں کہ صحت ھزار نعمت ھے �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :