آزاد پیمرا

جمعرات 31 دسمبر 2020

Wafa Bashir Dar

وفا بشیر ڈار

آزادی پاکستان 1947ء کے  بعد  سےہی جرنلسٹس نے بہت ظلموستم سہے ہیں۔ چاہے وہ ایوب خان کا دور حکومت ہو یا جرنل ضیاء الحق کا دور ہو صحافتی تنظیموں پر جو ظلموستم ہوا ان حالات  واقعات سے سب واقف ہیں ۔ درجنوں  صحافییوں نے اپنی جانوں اور نوکریوں سے ہاتھ دھوئے ہیں ۔اور 1947ءسے لے کر اب تک کہی نہ کہی ایسا ہوتا چلا آرہا ہے ۔ آزادی کے بعد سے ہی میڈیا کو اپنی  آزادی  کا حق نہیں ملا اور 2002 ء میں  حکومت کی جانب سے میڈیا پر  ایک  اور ادارہ   واج ڈاگ  کی حثیت سے تھوپ دیا گیا۔

جس کا نام پیمرا ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریکولیڑری اتھارٹی ہے ، بظاہر تو کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جس کو نہ تو حکومت کنڑول کرتی ہے اور نہ ہی کوئی اور ادارہ ۔  اسی ادارے میں  اپنی یونیورسٹی کے چوتھے سمسڑ میں مجھے   انٹنشپ کرنے کا موقعہ ملا  جو کہ دو ماہ کی تھی  ۔

(جاری ہے)

یہ میری پہلی انٹنشپ تھی کسی بھی میڈیا ادارے میں بحیثیت میڈیا کا طالب علم ہونے کی  صورت میں ۔

میں نے بھی  بڑے جوش سے پہلے  دن آفس کا دورہ کیا اپنی  انٹنشپ کے پہلے 4 ہفتے مجھے  مانیٹر ینگ  ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنا تھا ۔اس ڈیپارٹمنٹ میں تمام چینلز کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی۔ تا کہ کوئی بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے  خلاف بات نہ کرسکے۔ ویسے تو پیمرا کے کوڈ آف کنڈکٹ کے میں لکھا ہے  کہ کوئی  بھی چینل ملکوں و اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات نہیں  کرسکتا پر  بجائے اس پر عمل کرنے کے ہمیشہ حکومتی پارٹیوں کے خلاف جو چینل بات کرے یا حکومت کو تنقید کا  نشانہ بنائے اسکو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کہنے کو تو پیمرا ایک  آزاد ادارہ پے پر یہاں سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیمرا واقعئ آزاد ہے  اور اس کے  تمام فیصلے  حکومت کے کنڑول میں  ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیمرا بورڈ کے آٹھ ممبران ہیں ۔

اور یہ منسڑی آف انفارمیشن کے  انڈر آتی ہے ۔ اور کوئ بھی حکومت کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے خلاف  تنقید ہو ۔
پاکستان میں  آزادئی صحافت تو جیسے پیروں تلے روندی جارہی ہے ۔ اور پھر ساتھ  ہی یہ کہنا کہ صحافت آزاد  ہے ،یہ کہنا تو کیا سوچنا بھی فصول ہے ۔ گزشتہ دو برس سے میڈیا کو بہت سے چیلنجز کا  سامنا  ہے یہی  وجہ ہے کہ بہت سے نامور صحافیوں کو حکومت کارگردگی کے بارے میں  بولنے  سے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ۔

ان صحافیوں میں  نجم سیٹھی ، مرتضی سولنگی اور  طلعت حسین جیسے صحافی شامل ہیں اور بہت سے چینلز  کے لائسنس بھی  معطل کردیے گئے ،اگر یہی حال رہا تو وہ وقت  دور نہیں جب پاکستانی میڈیا بھی  چائنہ  اور روس کے میڈیا  کی طرح  حکومت کے ہاتھوں ہائی  جیک  ہو جائے  گا ۔
اگر حکومت نے اتنی ہی پابندیاں صحافییوں اورصحافتی تنظیموں پر لگانی ہےتو پیمرا جیسے ادارے کو آزاد کہنا بلکل بے وقوفی کی بات ہے ۔

اپنی انٹنشپ کے دوران مجھے یہ احساس کبھی نہیں ہوا کے پیمرا ایک  آزاد ادارہ  ہے ۔ نہ تو پیمرا کے کوڈ آف کنڈکٹ کو فالو کیا جاتا ہے بلکہ جسکی حکومت ہے بس اسکا راج ہے اور وہ اس ادارے کا استعمال کرتے ہوئےصحافیوں  آزادئی رائے سے محروم  کر رہی ہےاور صحافت کو اپنے حقوق کبھی ملے گے بھی یا نہیں وہ صبح  آزادی جسکا  انتظار صحافت  کے شعبہ  سے وابستہ لوگ  کئ برس سے کر رہے ہیں  وہ پتہ  نہیں کبھی  ملے بھی یا نہ ملے لیکن اسی  بات  پر مجھے فیض احمد فیض کا ایک شعر یاد  آیا ہے
“یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا یہ وہ سحرتو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لیکر
چلے تھے یار کہ مل جائگی کہیں نہ کہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :