قومی مفاد

بدھ 11 فروری 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وطن عزیز میں ایک قدر ایسی بھی ہے جس پر تمام سیاستدان،، فوجی جرنیل،سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور اہلیان صحافت یکجا اور متفق ہیں ۔اس” قدر“ کا نام ”قومی مفاد “ہے ۔ قومی مفاد کے نقطے پر اتفاق رائے کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ ہر دور کے حکمرانوں ، جرنیلوں ،صحافیوں، سیاستدانوں اور اہلیان مذہب نے قومی مفاد کو نہ صرف ملحوظ رکھا بلکہ اس کے دفاع اور بقا کیلئے ماروائے آئین اقدام کرنے سے بھی گریزاں نہ ہوئے ۔

مجھے پورا یقین ہے کہ جب لیاقت علی خان امریکہ کی بجائے روس اور چین سے مراسم قائم کرنے کے خواہشمند تھے جبکہ گورنرجنرل خواجہ ناظم الدین اور دیگر قومی ادارے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے توجناب لیاقت علی خان نے وسیع تر قومی مفاد میں ان کے مقابل سرنڈر کر دیا ہوگا۔

(جاری ہے)

اسی طرح جب امریکہ پاکستان میں جنرل ڈگلس گریسی کی جگہ اپنا امن پسند کمانڈر انچیف بنانا چاہتا تھا اور اس کی نگاہ انتخاب جنرل ایوب پر پڑی ہوگی تو اس فیصلے کو بھی جناب لیاقت علی خان نے قومی مفاد تصور کرکے قبول کر لیا ہوگا۔

1954 میں غلام محمد جب بیماری کے باعث گورنر جنرل کے عہدے سے چھٹی لے کر علاج کی غرض سے بیرون ملک سفر روانہ ہو رہے تھے تو یقینی طور پر سکندر مرزا کو قومی مفاد نے ”انگلی“دی ہوگی تبھی وہ ان کی جگہ گورنر جنرل کے منصب پر خود بیٹھ گئے تھے۔اسی طرح مولوی تمیز الدین جب حکومت کی برطرفی کے حوالے سے سپریم کورٹ گئے تو سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے قومی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند روز میں ہی کیس کا فیصلہ کمانڈر انچیف ایوب خان،سکندر مرزا اور چوہدری محمد علی کے حق میں دے دیا ۔

بعد ازاں 1958میں انہی جسٹس منیر صاحب نے قومی مفاد کی دھن گنگناتے ہوئے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کو انقلاب قرار دیا تھا ۔ مجھے تو یہ بھی یقین ہے کہ جنرل ایوب خان نے بھی ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں 1956کے آئین کو چیر پھاڑ کر کے مارشل لاء کا کٹھن فیصلہ کیا ہوگا۔اسی قوم مفاد کے تحفظ کی خاطر جنرل ایوب خان نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی عائد کر دی تھی ۔

اسی طرح قومی مفاد ہی کی خاطر انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا اور پھر پاکستان کو ”بچانے “کی خاطر مشرقی اور مغربی پاکستان میں بیورو کریسی کو وسیع پیمانے پر استعمال کرکے ”بے مثال“کامیابی حاصل کی ۔ 1968میں جب جنرل ایوب خان عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے تو میرا خیال ہے انہوں نے پاکستان کے قومی مفاد میں اقتدار سویلین کو سپرد کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا ۔

جنرل یحییٰ خان نے بھی وسیع تر قومی مفاد میں شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوج روانہ کر دی ہوگی ۔ پھر پاکستان ہی کے مفاد میں انہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے طور قبول کر کے جنرل نیازی کو سرنڈر کرنے کا حکم جاری کیا ۔قوی گمان ہے کہ جب باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار ذولفقار علی بھٹوکو نصیب ہوا تو انہوں نے بھی قومی مفاد ہی کے سبب داخلی سیاست میں تشدد کے رحجان کو فروغ دیا اور اراکین اسمبلی کو اٹھا اٹھا کر اسمبلی سے باہر پھنکواتے رہے ۔

اسی طرح انہوں نے قومی مفاد کی خاطر بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے جناب ذولفقار علی بھٹو نے قومی اتحاد کے ساتھ جو دھاندلی والا” ہاتھ“ کیا تھا اس کے پس منظر بھی قومی مفاد کے تحفظ کا جذبہ ہوگا ۔ تبھی تو جنرل ضیاء الحق کو قومی مفاد کی تشریح کرنا پڑی اور انہوں نے مارشل لاء کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا۔

اور پھر جنرل ضیاء الحق نے قومی مفاد ہی کی خاطر نوے دنوں میں انتخابات کروانے کے عہد کو فراموش کر دیا اور گیارہ سال تک حکومت سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ میرے خیال میں جناب ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی جنرل ضیاء الحق نے قومی مفاد ہی میں کیا ہوگا ۔ اسی طرح قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق سے وزارتیں قومی مفاد ہی کی وجہ سے حاصل کی ہوں گی ۔

قومی مفاد ہی کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر دیااور سانحہ اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کو روک دیا ۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے عظیم تر قومی مفاد میں اپنے باپ کے قاتلوں کے ساتھ ڈیل کرنے کی حامی بھر لی ہوگی ۔ جب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) دونوں جماعتیں اقتدار کی باریاں لے رہی تھیں تو قومی مفاد ہی کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر آتیں اور جب اقتدار میں ہوتیں تو قومی خزانے کو نانا جی کی دوکان سمجھ کر مزے کرتیں ۔

دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین ”قومی مفاد“کا کھیل جاری تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو محسوس ہوا کہ قومی مفاد وہ نہیں جسے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سمجھ لیا ہے بلکہ حقیقی قومی مفا د مارشل لاء کے نفاذ میں مضمر ہے ۔لہذا جنرل پرویز مشرف کو بھی قومی مفاد کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنا پڑا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں جنرل پرویز مشرف نے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو قومی مفاد ہی کی خاطر طیارہ ہائی جیک کیس میں گرفتار کیا تھا اور پھر قومی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے سعودی عرب روانہ کر دیا تھا۔

اسی طرح انہوں نے قومی مفاد کے جھانسے میں آکر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ شائع کرنے فیصلہ کیا اور پھر قومی مفاد کے ہاتھوں مجبور ہو کر بدنام زمانہ سمجھوتے این آر او پردستخط کئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی وفات کے بعد جناب آصف علی زرداری نے قومی مفاد کا نعرہ لگایا اور مشرف کو چلتا کیا۔ بعد ازاں قومی مفاد کے تحت اقتدار سے حصہ بقدر جسہ دینے کی روائیت ڈالی ۔

قومی مفاد کی خاطر محترمہ کے قاتلوں سے سرف نظر کیا اور وزراء کو دل کھول کر قومی خزانے سے استفادہ کرنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔
اب یہ قومی مفاد میاں نواز شریف کے سامنے ہے ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں میاں صاحب نے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ایم کیو ایم کو صوبہ سندھ کی گورنرشپ دے رکھی ہے ۔ اسی طرح سابقہ حکومت کی لوٹ مار کا احتساب نہ کرنا بھی یقیناََ قومی مفاد ہے۔

مجھے اور پوری قوم کو یقین ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت ملک کے وسیع تر مفاد میں سانحہ بلدیہ کراچی کے اڑھائی سو مقتولین کے قاتلوں کو نظر انداز کر دیں گے اور سانحہ 12مئی 2007کے وہ ذمہ داران جن کی رینجرز نے نشاندہی کی ہے انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائی گی ۔ذبیح اللہ بھائی ملتمس ہیں کہ خدارا ایک قومی کمیشن قائم کر کے عوام کو ”قومی مفاد “ کی حقیقی تفہیم سے آگاہ کردیں ،قومی مفاد کی روز بدلتی تشریح نے اس مقدس لفظ کی حرمت کو بری طرح پامال کر رکھا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :