منفی سوچ ہی کیوں؟

منگل 30 مارچ 2021

Zahid Nawaz Ghauri

زاہد نواز غوری

" یار لگتا ہے کہ اپنی قسمت میں   ہی نہیں تھی" یہ وہ جملہ ہے جس نے مجھے لکھنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ کچھ عرصے پہلے مجھے اپنے بچپن کے  دوست ہمایوں  ( اصل   نام کی جگہ فرضی نام استعمال کر رہا ہوں )سے   برسوں بعد رابطہ ہوا۔  دوران گفتگو معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ  اپنے جیون ساتھی کی تلاش میں سرگرداں  ہے ۔  دریافت ہونے پر بتایا گیا کہ  شادی نہ ہونے کی وجہ محض ان کے بچپن کا موٹاپا ہے۔

قریب کوئی سولہ سے سترہ سال  قبل   ہمایوں کے والد نے نے اپنے دوست سے ان کی بیٹی اور   ہمایوں کی رشتے کی بات کی۔  نتیجے میں والد کے دوست نے ہمایوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ بیٹا میں چھ ماہ کے لئے بیرون ملک جا رہا ہوں میرے آنے تک آپ اپنا وزن کم کر لینا تو بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

  ہمایوں نے ان کی بات کو منفی سوچتے ہوئے اپنے دل میں کہا" کیا میں آپ کے گھر سے کھانا کھاتا ہوں" اور بات یہاں پر ہی ختم ہو گئی۔


ہمایوں  نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا  تو  میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور منفی رویوں کے دور رس نتائج  سوچنے لگا ۔کیا ہی اچھا تھا کہ ہمایوں اپنے والد کے دوست کی بات کو مثبت سمت سوچ کر کر اپنی خامیوں کو دور کرتا ہے جس سے نہ صرف اس کی بلکہ اس کے والدین کی مشکلات بھی کم ہوتیں۔
مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں درجنو ں  اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔

  جہاں پر دنیا کی تقریبا  ہر قوم کے لوگوں کے  رویوں اور سوچ کو قریب سے جانچا۔ میرے تجربے اور مشاہدے میں منفی سوچ کے حامل لوگوں کو درج ذیل نکات پر سنجیدگی سے سوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔
کمفرٹ زون: منفی سوچ کو بدلنے کے لئے سب سے پہلے آپ کو اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا   پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہمایوں  اپنے  وزن کم اور صحت مند کھانے کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کو معمول بناتا  مگر اس نے اپنے  کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کی زحمت نہ کی  ۔

آپ دنیا کے سب سے آسان سے لےکر  مشکل کام اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ    اپنی روایتی عادتوں کو نہ بدلیں۔   کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے تمام مشکلات کوعبور کرنا ہی کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کا نام ہے۔  آپ کی زندگی کا جتنا بڑا    چیلنج ہو گا اتنی  ہی  بڑی قربانی درکار ہوگی۔ 
لوگ کیا کہیں گے:  ہم اپنی زندگی کے اکثر صحیح اور بروقت فیصلے  معاشرتی  دباؤ کی وجہ سے نہیں کر پاتے ۔

ہم لوگوں کی باتوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ  زندگی کے اہم فیصلے یا تو  غلط کرتے ہیں یا پھر وقت گزرنے کے بعد ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی  لوگوں کو ہماری رتی بھر پروا نہیں ہوتی ۔ اسی طرح     سائنسی اور مذہبی شواہد کے باوجود   ہم اپنے معاشرے کی بہت سی روایات کو توڑنے میں ناکام ہیں ۔یہ صرف مثبت سوچ کی خود اعتمادی ہی ہے جو ہمیں اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کی ہمت اور حوصلہ بڑھاتی ہے۔


چیلنج قبول کرنا سیکھئے:   مثبت سوچ کا تیسرا  راہنما  اصول آپ کو اپنی زندگی میں چیلنج قبول کرنا سکھاتا ہے ۔ مندرجہ بالا واقعی میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمایوں اپنے والد کے دوست کی بات کو مثبت سوچتے ہوئے چیلنج سمجھ کر اس کو اپنی زندگی میں اپنا تا- ہم میں بہت سے  قابل اور منظم لوگ ساری زندگی اس لیے نوکری نہیں چھوڑتے کہ کاروبار چلے یا نہ چلے۔


    اہلیت اور کسی کاروبار کے فن جاننے کے باوجود اس کاروبار کا   نہ کرنا مثبت سوچ کے فقدان کی عکاسی  ہے۔  اسی طرح اپنی روزمرہ زندگی کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنا یا پھر نیا ہنر سیکھنا بھی مثبت سوچ کی علامت ہے-کسی شخص یا کسی ادارے کے اچھے اور تعمیری کام سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کا عزم ہی مثبت سوچ کا    ثبوت ہے۔
صحبت: آخر میں مثبت سوچ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کی صحبت میں جوان جذبے اور عملی توانا لوگ شامل ہوں ۔

آپ چاہے کتنے ہی مطمئن  اور آمدنی کے لحاظ سے خوشحال کیوں نہ ہو ں  مگر ایک منفی خبر دن رات سننے کے بعد آپ  بوجھل اور غیر مطمئن محسوس کریں  گے ۔ لہذا اس امر  کا خاص خیال رکھا جائے کہ آپ غیر سنجیدہ اور منفی سوچ کے لوگوں سے عاری ہوں۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ آپ  سیلف میڈ اور تعمیری لوگوں کے قریب رہیں۔ انگریزی  کا محاورہ ہے  کہ آپ مجھے اپنے دوست دکھاو اور میں آپ کو آپ کا مستقبل Show me your friends and I will show your future.دکھاؤں گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :