بدترین توانائی بحران اور اس کا حل

منگل 22 جولائی 2014

Zakir Hussain Naseem

زاکر حسین نسیم

ملک میں جیسے ہی گرمی زور پکڑتی ہے اس کیساتھ ہی بجلی کی مانگ میں بھی زبردست اضافہ ہوجاتا ہے مگر افسوس کہ اس اہم ترین قومی معاملے پر کسی بھی حکومت نے اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح ہونی چاہئے تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توانائی بحران ہرسال مزید شدت کیساتھ بڑھتا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ بجلی کا یہ بحران صنعتوں کو تو ختم کرہی رہا ہے اس کیساتھ ساتھ عوام الناس کو جس ذہنی اذیت کا سامنا لو وولٹیج اور باربار کی ٹرپنگ کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے اس کی وجہ سے ایک جانب تو آئے روز قیمتی الیکڑانک اشیاء سے لوگ محروم ہورہے ہیں تو دوسری طرف بجلی کے ان جھٹکوں نے عوام کے مجموعی مزاج پر بھی بہت غلط اثر ڈالا ہے اور عمومی طور پر عوام میں غصہ اور چڑچڑا پن بڑھنے سے کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

بجلی بحران کے حل پر ایک نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلے جس چیز پر ہماری نظر جاتی ہے وہ کالا باغ ڈیم ہے جس کو اگر بروقت تعمیرکرلیا جاتاتو نہ صرف آج پورا ملک اس بدترین بحران سے دوچار نہ ہوتا بلکہ ہمارے صنعتکار ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں کاروبار نہ شروع کرچکے ہوتے مگر جیسا کہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ ہماری ملکی سیاست کا محوراکثراوقات صرف اور صرف ذاتی مفادات و انا پرستی کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نمائندے جن کو یہ عوام ہی اپنے مسائل کے حل کیلئے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں جب یہ حضرات قومی اسمبلی و سینٹ کے ٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو یہ سب سے پہلے جن کو بھولتے ہیں وہ یہی عوام ہی ہوتے ہیں جو سخت گرمی اور دھوپ میں انہیں ووٹ دے کر یہاں پہنچاتے ہیں ۔

ایک اندازے کے ممطابق کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ہرسال کم از کم550روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔کیوں کہ ماہرین کے مطابق اس عظیم پروجیکٹ کی تکمیل سے عوام کو سستی بجلی کے علاوہ کم از کم 20%زیادہ پیداوار بھی ملتی جس سے کسان بھی خوشحال ہوتا اور اس کے علاوہ ہرسال سیلابوں میں ہونے والی اموات سے بھی بچا جاسکتا تھا مختصر یہ کہ اب بھی اس بڑے پروجیکٹ کو شروع کرکے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔

علاوہ ازیں کوئلے سے بجلی پیدا کرکے بھی ملک کو سستی و معیاری بجلی دی جاسکتی ہے کیوں کہ اللہ نے پاکستان کو کوئلے کے وسیع زخائر سے بھی نوازا ہے جن کو استعمال میں لاکر ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے مگر ایسا بھی نہیں کیا جارہا۔اور ان سب ذرائع کے علاوہ ایک جدید ترین اور کم مدت میں توانائی بحران کو حل کرنے کا ذریعہ سولر انرجی کا ہے یہ وہ طریقہ ہے جو اس وقت یورپ ،امریکہ سمیت پوری دنیا میں مقبول ہورہا ہے اس وقت پوری دنیا میں ایک لاکھ میگاواٹ بجلی سولر انرجی سے حاصل کی جارہی ہے اورآسٹریلیا میں توعوام اس ذریعے سے نہ صرف اپنی توانائی ضروریات پوری کررہے ہیں بلکہ وہ پیدا ہونیوالی اضافی بجلی حکومت کو فروخت کرکے معقول آمدنی بھی حاصل کررہے ہیں مگر افسوس کہ ہماری حکومت کی اس جانب دلچسپی نہ ہونے کے باعث عوام اس سستے ترین ذریعے سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں حالاں کہ یہ بات واضح ہے کہ اگر ملک میں پانچ پانچ کلو واٹ کے دس لاکھ پینل نصب کرے تو اس سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی فوری شروع ہوجائے گی اور اس پر صرف پچاس ارب روپے خرچ ہوں گے اور مزید یہ کہ پچیس سال تک اس پر مزید کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑے گاجب کہ تھرمل ذرائع سے اتنی بجلی 100ارب روپے میں بھی حاصل ہونا مشکل ہے ۔

علاوہ ازیں حکومت سولر انرجی کے آلات پر ڈیوٹی ختم کرکے بھی بہت کم عرصے میں اس بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس سے یہ ہوگا کہ کہ سولر پینلز آلات انتہائی سستے داموں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے ہاں البتہ ان آلات کے ذریعے گھروں اور کمرشل سطح پر سولر انرجی پینل فراہم کرنے والی کمپنیوں پر مناسب حکومت ٹیکس بھی عائد کرسکتی ہے جس پر ان کمپنیوں کو یقیناََ کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا۔

ابتدائی طور پر یہ تجربہ بڑے شہروں میں کیا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ہی دیہات کے ٹیوب ویلوں کو سولر پہ منتقل کردیا جائے تو موجودہ بدترین توانائی بحران صرف 6ماہ میں ہی ختم ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت ہے وہ
ہے حکومتی سنجیدگی جو کہ کم از کم اس وقت دیکھنے میں نہیں آرہی جس کے باعث عوامعاشی مشکلات کے بعد اب نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں ۔اگر حکومت واقعی توانائی بحران کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے سیاسی بیان بازیوں سے آگے بڑھتے ہوئے فوراََ سولر انرجی جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :