جنگ یا جزیہ فیصلہ آپ کا

پیر 27 جنوری 2014

Zameer Afaqi

ضمیر آفاقی

پاکستانی ریاست کے خلاف حملہ آور جن کی حمایت پاکستان کی تقریباً تمام مذہبی جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ پاکستانی میڈیا کے ایک اغلب حصے میں پائی جاتی ہے کی جانب سے نئے سال کے طلوع ہوتے سورج کی پہلی کرن سے لیکر آج کی تاریخ میں کیے جانے والے بم اور خود کش حملوں اور سیکورٹی فورسز پر شب خون کی وارداتوں کی تعداد ہر دن کے حساب سے ڈیڑھ کے قریب بنتی ہے اور ان وارداتوں میں ایک سو کے قریب ایسے انسان مارے گئے ہیں جن کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب پاکستان اور اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبات تھے مگر انسانی جذبوں اور انسانی جان(جس کی حرمت خالق کائنات کے نزدیک بہت اہم ہے) کی قدر نہ کرنے والے بے حس سفاک اور شقاوت قلب رکھنے والے انسانوں کے ہاتھوں پل بھر میں زخیرہ رزق جبکہ درجنوں کے حساب سے زخمی ہو گئے جن کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ عمر بھی نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکیں گے یا نہیں؟”ریاست کے خلاف حملہ آوروں سے مذاکرات کا ڈھول پیٹنے والوں کا کوئی بھی عزیز دہشت گردوں کی بربریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔

(جاری ہے)


اب آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پاکستانی ریاست کیا چاہتی ہے ،پاکستان کی موجود ہ حکومت تو پہلے دن سے ہی ان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیتی آرہی ہے ، مذاکرات کے حوالے سے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے بارے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انتخابات انہی کے دم قدم سے جیتی تھی جس کا وہ حق حلال کرنا چاہتی ہے ، آئیے دوسری طرف جن کے ساتھ مذاکرات کے جارہے ہیں وہ نہ ہی پاکستانی ریاست کو مانتے ہیں نہ ہی اس کے آئین کو اور نہ ہی اس حکومت کو جو ان کے نذدیک مغربی جمہوریت کی آلہ کار ہے ابھی گزشتہ دو دنوں میں انہوں نے چالیس بے گناہ پاکستانیوں جن میں سیکورٹی فورسز کے جوان بھی شامل ہیں کو شہید اور سو سے زائد افراد کو زخمی کرنے کے بعد ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومتی مذاکرات کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنی نیت درست کرے، ہتھیار ڈالے، ہماری شریعت قبول کرے،جزیہ دے یا پھر جنگ کے لئے تیار رہے، جنگ کے لئے وہ کسی سے اجازت بھی نہیں لے رہے انہوں نے جنگ مسط کر رکھی ہے جبکہ پاکستانی ریاست جس کی بقاء فوج کی مرہون منت ہے اور اسلامی ریاست میں ریاست کا سربراہ فوج کا سپہ سالار ہوتا ہے کو بھی اپنے بندوں کی ہلاکت کے بعد حکومت سے پوچھنا پڑتا پے کہ حضور ہم اپنے بندوں کی ہلاکت کا بدلہ کس سے لیں ،جس پر حکومت کا موقف وہی ہے کہ پہلے مذاکرات پھر کچھ اور۔

۔۔
کہتے ہیں جب آسمان کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس سے عقل اور شعور چھین لیتا ہے اور جب وہ کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اس پر عقل و شعور سے عاری حکمران مسلط کر دیتا ہے، ہم جانتے ہیں آسمان ہم سے نارض ہے اور اس کی نارضگی کی وجوہات کو بھی جانتے ہیں مگر آفرین ہے ہم پر ہم نہ ہی ان وجوہات کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کوئی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے اور بے گناہ شہریون کے زندہ جسموں کو چند لمحوں میں لوتھڑوں میں بدلنے والوں کو ہم ہیرو کا درجہ دے کر ان کی مدح سرائی کرتے نہیں تھکتے بلکہ ان کی کھلم کھلا ہمائت کر رہے ہیں کیا ایسا ملک ،قوم اور فوج جو اپنے دوست اور دشمن میں تمیز نہ کر سکے وہ کوئی جنگ جیت سکتا ہے؟
جس ملک کی مقتدرہ ،اور عوام کو انسانی جان کی حرمت کا خیال نہ ہو اس سے کسی اچھائی کی توقع کی جاسکتی؟ ،کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ کسی بھی بے گناہ انسان کی جان کو بچانے کے لئے وہ آخری حد تک جائے اور اگر کوئی کسی انسان کی جان لے لے تو اسے انصاف فراہم کیا جائے ، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کوہلاک کر کے ان کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے خلاف پاکستانی مقتدرہ ابھی تک متفق دکھائی نہیں دیتی پشاور اور راولپنڈی میں پے در پے حملوں کے بعد بھی پاکستان کی مقتدرہ متفق دکھائی نہیں دے رہی گزشتہ روز پاکستان کی وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزارت داخلہ کی طرف سے ”نئی تیار کردہ“ داخلی سلامتی کی پالیسی کے مسودے کی منظوری آئندہ اجلاس تک موخر کر دی۔

یعنی انسانی جان کی ان کے نذدیک کوئی وقعت ہی نہیں ۔ پاکستانی سیاستدان تو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے لیے متفق دکھائی نہیں دے رہے اورطالبان کے ساتھ نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی پر صرف ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں،جبکہ دوسری جانب عین اس وقت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) خاموشی کے ساتھ اس صورتحال کو اپنے حق میں کرنے میں مصروف ہے، اور وہ آئندہ طویل جنگ میں اپنے لیے کیا کچھ حاصل کرسکتی ہے، اس کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

کچھ پاکستانی سیاستدان ابھی تک اس مخمصے میں ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد حل ہوجائے گا(عجب خود فریبی اور حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے)۔ لیکن دوسری صورت میں سرکاری طور پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور یہاں تک کہ افغان طالبان کے کمانڈر قائل ہوجائیں گے۔ان کمانڈروں کے خیال میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلاء سے ان کے آپریشن کے پہلے مرحلے کا اختتام ہوگا، اور ان کی طویل جنگ عالمی خلافت کے قیام تک جاری رہے گی۔

ابھی انہوں نے اپنی خواہشات کو پھیلانے کے لیے کوئی ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا ہے، ایک بار وہ کافی طاقتور ہوگئے تو وہ پاکستان میں اپنے توسیع پسندانہ خاکوں کی جانب متوجہ ہوں گے۔
اس ساری صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اس سے متعلق پائے جانے والے معاشرتی سطح پر ابہام کا دور ہونا لازمی ہے۔

پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے لاہور یورنیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں شعبہ سوشل سائنسس کے پروفیسر محمد وسیم کا کہنا ہے کہ۔”شدت پسندی کو جائز قرار دینے کا یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیئے۔ کوئی بھی مقصد ہو اس کے لیے تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ریاست اس بارے میں واضح موقف اختیار کر لے تو پھر وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اس چیلنج، خطرے کو ختم ہونا چاہیئے۔
کچھ سوال اگلے کالم پر چھوڑتے ہوئے بس اس بات پر اکتفا کرتے ہوئے کالم کا اختتام کرتے ہیں کہ جو حکومت اپنی ریاست میں بسنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور ان کی بنیادی ضرویات ،تعلیم ،صحت روزگار ، پوری نہ کر سکے کیا اس کا حق حکومت باقی رہتا؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :