ہمارا مسئلہ یکساں نصاب یایکساں سماجی انصاف ؟

منگل 15 فروری 2022

Zameer Afaqi

ضمیر آفاقی

پاکستان بنے 75 برس ہونے کو آئے ہیں، کہا تو یہ گیاتھا ایک قوم ہو گی جس میں باہمی مساوت کے اصولوں پر زندگی گزاری جاے گی قانون اور انصاف سب کے لیے یکساں ہو، اس ملک کا ہر شہری پاکستانی شہری ہوگا اور سب کے حقوق برابر ہوں گے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا ، عوام اپنی سوچ اور مزاج میں تو تقسیم تھے ہی انہیں سیاسی و مذہبی تقسیم میں بھی الجھا کر رکھا دیا گیا۔

جبکہ فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوا اور اب تو سیاست میں بھی عقیدہ پرستی عروج پا رہی ہے۔ ہم مجموعی طور پر اس قدر منقسم گروہ بن چکے ہیں کہ آج بڑے سے بڑے دانشور کی بھی کسی بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، قانون سازی میں بھی یہ سوچ مشکلات پیدا کر رہی ہے گروہ اور جتھے اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ ریاستی پالیسوں اور قانون سازی میں مداخلت کرتے پائے ہی نہیں جا رہے بلکہ اپنی بات منوانے کے لئے اپنی طاقت کا اظہار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم قومی سطع پر ایک قوم کی پہچان کا حامل معاشرہ بن کر دنیا میں جانے جاتے لیکن ہم ایک منقسم گروہ یا ہجوم کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے ہیں جس کی کوئی کلُ سیدھی نہیں۔ فرقہ واریت بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اب یہی معاملہ نصاب کے مرتبین کو در پیش ہے اٹھارویں ترمیم سے پہلے نصاب سازی کا اختیار وفاق کے پاس تھا۔ اٹھارویں ترمیم میں اسے صوبوں کے سپرد کر دیا ۔


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے انتخابی منشور میں یکساں قومی نصاب کو رائج کرنا ایک اہم مشن کے طور پر پیش کیا لیکن 18ویں ترمیم کے بعد سے چونکہ تعلیم ایک صوبائی موضوع بن گیا تو پورے ملک میں ایس این سی کا نفاذ تو نہیں ہو سکا تاہم پی ٹی آئی کے زیر حکومت صوبہ پنجاب، خبیر پختونخواہ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سکولوں میں یہ نصاب رائج کر دیا گیا۔

وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے یکساں نصاب تعلیم کو نافذ کرنے کے ارادے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ تھی کہ تمام سرکاری و نجی سکول، حتیٰ کہ دینی مدارس یہ یقینی بنا سکیں کہ ’اعلیٰ معیار کی تعلیم کے لیے بچوں کو مساوی اور منصفانہ مواقع فراہم ہونے چاہیے۔‘طلبا میں رٹے رٹائے علوم کی بجائے تنقیدی و تخلیقی سوچ پیدا کرنا ہے تھا ۔

اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک اچھا قدام تھا ،لیکن بد قسمتی سے اسے بناتے وقت یا ترتیب دیتے وقت بہت ساری باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا بجاے اس کے یہ قومی وحدت پیدا کرتا اس نصاب نے تقسیم ،تفریق اور خواتین کے حوالے سے بے شمار ابہام پیدا کر دئے، جبکہ ملک کی اقلیتوں کے تحفظات میں بھی اضافہ ہوا۔
 ملکی سطع پر اقلیتوں کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے علاوہ نئے نصاب کے معیار پر اور بالخصوص ان کتب میں خواتین کی نمائندگی اور عکاسی اور مواد کے بارے میں ماہرین اور والدین، دونوں کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا ، اب تو حکومتی ذمہ داروں نے یہ بات تسلیم کر تے ہوے کہ نصاب کے مرتب کرتے وقت کچھ خامیاں رہ گئیں تھی جنہیں حکومت یکساں نصاب کے تحت شائع ہونے والی کتابوں پر نظر ثانی کرنے جا رہی ہے تاکہ خواتین اور اقلیتوں کی ان کتب میں عکاسی کے حوالے سے والدین اور ماہرین تعلیم کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔

اس ضمن میں وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ ’لوگوں سے ملنے والے ردعمل کی بنا پر ہم (نصابی کتب پر) نظر ثانی کر رہے ہیں۔‘ جبکہ ڈائریکٹر قومی نصاب کونسل پاکستان (این سی سی) ڈاکٹر مریم چغتائی کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ نصابی کتب پر نظر ثانی کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یکساں نصاب کی تمام کتب پر لکھا ہوا ہے کہ یہ آزمائشی ایڈیشن ہیں۔

‘میڈیا سے بات کرتے ہوئے اْن کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے محکمے کو پانچ اہم شعبوں میں کتب کو بہتر بنانے کا کہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لحاظ سے کتب میں مواد کی زیادتی تھی لہذا اس حوالے سے ان کتابوں میں ’اوورلوڈنگ‘ کو ٹھیک کرنے کا کہا گیا ہے۔‘مریم چغتائی کے مطابق ملنے والے ردعمل کے مطابق دوسرا شعبہ جس پر توجہ دینے کا کہا گیا وہ نصاب میں پیدا ہونے والے کسی علمی خلا کو پْر کرنے سے متعلق تھا۔

انھوں نے بتایا کہ تیسرا شعبہ جس کو بہتر بنانے کے لیے این سی سی کام کر رہا ہے وہ صنفی مساوات سے متعلق ہے۔ڈاکٹر مریم چغتائی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’کچھ تدریسی کتب میں صنفی مساوات کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن کچھ کتب میں یہ استعمال کی گئی۔‘ڈاکٹر مریم چغتائی کے مطابق چوتھا شعبہ جس پر توجہ دی جائے گی وہ مذہبی اقلیتوں اور کتب میں ان کی نمائندگی کے حوالے سے ہے۔

‘ڈاکٹر مریم کے مطابق آخری چیز جس کو ٹھیک کیا جائے گا وہ ٹائپنگ اور گرامر کی غلطیاں ہیں۔ ڈاکٹر چغتائی کے مطابق کتب میں توازن لانا ضروری ہے‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ کتابوں کے نئے ایڈیشن میں دیگر مذاہب کی مذہبی شخصیات کے حوالے بھی شامل کیے جائیں گے۔
ادھر یکساں قومی نصاب کے حوالے سے کام اور آگاہی فراہم کرنے والے ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے) اور ورکنگ گروپ برائے شراکتی تعلیم (ڈبلیو جی آئی اے) نے حال ہی میں منعقدہ ایک سیمینار، بعنوان "سکولوں کا نصاب کیسے تیار ہو رہا ہے" میں نصاب تعلیم میں موجود خامیوں اور آئینی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا میں مطالبہ کیا ہے کہ نصابِ تعلیم میں مذہبی مواد شامل کرنے کے فیصلے سے متعلق ماہرین کی آراء کو اہمیت دی جائے، اور مزید برآں مذہبی مواد کے طلباء ، اساتذہ اور نظام تعلیم پر اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے ۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ حکومت پنجاب کرونا وبا اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہوئے تعلیمی نقصانات کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے، اور سکولوں میں سائنس، ریاضی اور سماجی علوم کی تعلیم کا دائرہ کم ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت، آئین پاکستان کے آرٹیکل 20، (1)22، اور 25اے، کو نصاب تعلیم کی تیاری کے لئے رہنما اصول بنائے۔

انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ اقلیتی طلباء کو انکے اپنے مذہب کی تعلیم دینے کے لئے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں، جیسا کہ یکساں قومی نصاب تعلیم میں وعدہ کیا گیا ہے۔
 خبروں کے مطابق نظر ثانی شدہ یکساں نصاب کی کتب برائے جماعت ایک تا پانچ فوری میسر نہیں ہوں گی اور انھیں 2023 تک دوبارہ شائع کیا جائے گا۔اس حوالے سے وفاقی وزیر شفقت محمود نے میڈیا کو بتایا کہ نظرثانی شدہ نصاب اگست 2023 میں نافذ کیا جائے گا۔

’ہم یہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ بچوں کو وہ کتابیں دوبارہ نہ خریدنی پڑیں، جو وہ پہلے ہی خرید چکے ہیں۔ ہم موجودہ کتب کو کم از کم مزید ایک سال اور دینا چاہتے ہیں۔‘
ضرورت اس امر کی یکساں قومی نصاب تعلیم کی بجاے حکومت کو کم از کم معیار کو یقینی بنا نے پر توجہ دینی چاہیے تھی کہ اپنے بچوں کو ہم لازمی طور پر کس حد تک تعلیم سے آراستہ کریں گے جدید دور کے مطابق نصاب ترتیب دینا وقت کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ طبقاتی نظام اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر آپ کیسے یکساں قومی سوچ کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ہمارا مسئلہ یکساں نصاب سے زیادہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :