حکومتی کارکردگی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا اظہار افسوس

جمعہ 4 فروری 2022

Zameer Afaqi

ضمیر آفاقی

کسی بھی حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد ملک اور معاشرے کی فلاح کے ساتھ اسے آگے لیکر جانا ہوتا ہے اگر کوئی حکومت ایسا نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ اس حکومت کے کارپرداز حکومت کرنے کے اہل نہیں یہی بات اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت پر بھی صادق آتی ہے ۔ اگست دوہزار اٹھارہ میں جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو ملک کس حالت میں تھا اور عوام کی کیا حالت تھی بین الاقوامی سطع پر ہم کیسے تھے اور اندرونی طور پر صورت حال کیا تھی اور آج ساڑھے تین سال بعد ہم کہا ں کھڑے ہیں یہ پیمانہ ہے اس حکومت کی کارکردگی ماپنے کا۔

اگر بادی النظر میں دیکھا جائے اور حکومتی کارکردگی کے حوالے سے سامنے آنے والی آراء تجزے تبصرے اور سروے رپورٹ کو دیکھاجائے تو کہیں سے کوئی خیر کی کبر نہیں مل رہی اور نہ کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نظر آرہا ہے ،جبکہ عوام کی اکثریت حال دہائی دیتی نظر آرہی ہے۔

(جاری ہے)

لاہور شہر جہاں کی سڑکیں گلی محلے مارکیٹیں اور پارک صاف و شفاف ہوا کرتی تھیں پالوشن کم تھی اب ہر طرف کچرا کنڈی کا منظر پیس کر رہی ہیں جبکہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ،تقریبا تمام انڈر پاسز کے نیچے سڑکوں کی خستہ حالی حادثات کا باعث بن رہی ہے اگر حکومتی کرتا دھرتا اور ذمہ دار کنال روڈ کے انڈر پاس کا ہی وزٹ کر لیں تو انہیں صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا بلکہ اب تو پا ش علاقوں کی سڑکیں بھی اپنی کم مائگی کا رونا روتی نظر آرہی ہیں۔

تمام محکمے ستو پی کر سوئے ہوئے ہیں یوں لگتا ہے حکومت نام کی کسی شے کو کا کوئی وجود نہیں۔ پاکستان پاسپورٹ درجہ بندی میں صرف افغانستان سے ہی اوپر نظر آتا ہے۔
 پنجاب میں تو گورنس کی صورت حا ل اتنی خراب ہے کہ ڈینگی جیسی بیماری جس کا وجود تقریباً ختم ہو چکا تھا نے بھی اپنا آپ منوا کر چھوڑا ،نہ یہاں سپرے ہوا اور نہ ہی صفائی سمجھ نہیںآ تی بزدار حکومت کیا کر رہی ہے کتوں کی بھر مار ہے ہے اور ان کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اب تو ملکی اعلیٰ عدالتیں بھی اس حکومت کی کارکردگی سے نا صرف نالاں ہیں بلکہ حکومتی کاردگی کے بارے عوام کی زبان میں بات کر رہی ہیں۔ بیڈ گورنس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ جس میں انہوں نے تقریبا تمام معاملات کا احاطہ کیا ہے حکومتی کارکردگی کے لئے کافی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کتاب 'ریڈینگ دی کانسٹی ٹیوشن آف پاکستان، آرٹیکل وائس ڈسکشن، کیس، فیئر کمنٹس آن کیس، لا اینڈ دی ہسٹری' کی تقریب رونمائی کے دوران کہا ہے کہ ملک میں گورننس بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اور اسے اس جذبے سے نہیں سنبھالا جارہا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'شہریوں کے حقوق کو نافذ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اس ملک کے بے بس لوگوں کو عام مسائل کا سامنا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کو بلاخوف پامال کیا جا رہا ہے'۔چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ گورننس ایسے حالات سے دوچار ہے کہ چھوٹے موٹے مسائل اکثر درخواستوں کی شکل میں عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی، جنہیں حکومت نے بڑی تعداد میں افرادی قوت کے ساتھ لوگوں کو ان کی دہلیز پر فراہمی کو یقینی بنا کر سنبھالنا تھا، وہ نہیں کی جارہیں۔انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی صفائی، کچرا اٹھانا، پارکس اور کھلی جگہوں کی دیکھ بھال، کھیل کے میدانوں کی فراہمی اور قانون کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا حکومت کے اولین اور بنیادی کام ہیں لیکن ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بوجھ پڑنے لگا اور وہ حقوق نافذ کرنے پڑے جو شہریوں کو فیصلوں اور اعلانات کے ذریعے حاصل ہوئے۔انہوں نے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوامی زندگی کے تمام پہلووٴں پر آئین کا نفاذ ہو۔
چیف صاحب نے عام آدمی کی حقیقی مسائل کا دراک کرتے ہوئے حکومت کو تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پورے کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت لگتا یوں ہے کہ حکومت نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں صوبہ پنجاب تو اس وقت لاورث ہو چکا ہے جہاں کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں ہو رہا ،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی بنا پر حاثات میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی بلکہ جن روٹوں پر پہلے چل رہی تھی کی بندش سے عوام کو ایک جانب سفری مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب رکشہ ،ٹیکسی اور اوبر کریم جیسی کمپنیوں نے بھی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔

ادھر شہر بھر میں چنگ چی موت بن کر دھن دناتے پھر رہے ہیں من مانے کرائے وصول کر رہے ہیں ،اشیاء خور نوش پھل سبزیوں اور گھروں کی قیمتوں کے ساتھ کرائے بھی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ لوگ جینے پر مرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔. لیکن حکومت ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں تمام سرکاری محکمے اپنے فرائض منصبی چھوڑ یعنی تنخواہ کام کرنے کی لیتے ہیں جبکہ لوگوں کے کام پیسے لیکر کرتے ہیں، ٹریفک پولیس کا تو سب سے زیادہ برا حال ہے ان کی بنیادی ذمہ داری ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا ، شہریوں کے لئے آسانی پیدا کرناا ور حادثات پر قابو پانے کے لئے بہتر اقدامات اٹھانا ہے، لیکن لاہور شہر کے تمام شہری جانتے ہیں ٹریفک وارڈن اپنی بنیادی ذمہ داری کو چھوڑ کر صرف اور صرف چالان کرنے میں لگے ہوئے ہیں بلکہ کثر دیکھا گیا ہے کہ مین شاہراہوں پر ٹولیووں کی صورٹ اکھٹے ہوجاتے ہو کر شکار کی تلاش میں رہتے ہیں اور تیز رفتار ٹریفک کے دوراں کسی کار موٹر سائیکل یا لوڈر وغیرہ کو اچانک روکتے ہیں جس سے حادثات ہونے کے ساتھ ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے۔

لیکن اس اہم مسلے پر بھی پولیس کے اعلی افسران خاموش ہیں کیوں؟ اس سوال کا جواب ندارد۔
 جبکہ حکومت کی پراپیگنڈہ فورس کی باتوں کو دیکھو تو لگتا ہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں صحت کارڈ لنگر خانے احساس لباس جیسے دکھاوے کے پروگرام کو اپنی ”اعلیٰ“ کاکردگی سمجھنے اور بتانے والوں کی سمجھ بوجھ کا اندزہ اب تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کوبھی ہو چکا ہے۔ اور اسی بہتر کارکردگی کے خوف سے بلدیاتی انتخابات میں جانے سے ڈر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :