سرینگر،سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے 81روزہ سرمائی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھل گئے

منگل 9 مارچ 2010 14:18

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔9مارچ۔ 2010ء) خوشگوار موسم کے بیچ وادی کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے 81روزہ سرمائی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھل گئے جسکی وجہ سے صبح سویرے سڑکوں اور شاہراؤں پر رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس ننھے منے بچوں کی چہل پہل کے دلفریب اور خوش کن مناظر نظر آرہے تھے تاہم اس دوران رعناواری کے13سالہ مرحوم طالب علم وامق فاروق کا اسکول احتجاج کے بطور بند رہا اور اسکے ساتھیوں نے دو روز تک کلاسوں کا بائیکاٹ کرنیکا اعلان کیا۔

پہلے جاری شدہ حکم نامے کے مطابق تعلیمی اداروں کو یکم مارچ کوکھلنا تھا تاہم موسم کی خرابی کے باعث چھٹیوں میں ایک ہفتے کی توسیع عمل میں لائی گئی۔ صبح خوشگوار موسم کے بیچ سرینگر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں رنگ برنگی وردی میں ملبوس طلباء و طالبات کا رَش دیکھا گیا جس کی وجہ سے ماحول بڑا دلفریب منظر پیش کررہا تھا۔

(جاری ہے)

سکول کے پہلے روز اکثر والدین بچوں کو چھوڑنے خودا سکول تک گئے اور اْنہوں نے بچوں کی اْنگلیاں پکڑ رکھی تھیں جبکہ مختلف مقامات پر بھی والدین اور سکولی طلبہ وطالبات کی بھاری بھیڑنظر آئی جو اپنے اسکولوں کی گاڑیوں کا انتظار کررہے تھے۔

اسکول کھلنے کے بعد تعلیمی اداروں کے باہر بھی طلباء وطالبات کی غیرمعمولی گہما گہمی نظر آئی اور خاص طور پر شہر کے بازاروں اور سڑکوں پر نئی رونق دیکھنے کو ملی۔ رعناواری کے کیسٹ اسکول میں ماتم کا ماحول تھا۔13سالہ وامق فاروق ولد فاروق احمد اسی اسکول کا طالب علم تھا جو گذشتہ ماہ پائین شہر میں پولیس کارروائی کے دوران ٹیر گیس شیل لگنے سے جاں بحق ہوا۔

وامق کے ساتھی صبح جب اسکول پہنچے تو وہ اسکی یاد میں انتہائی غمزدہ نظر آئے۔اس موقعہ پر وامق کے کئی ہم جماعتوں نے آنسو بہاکر اپنے دوست کو یاد کیااور اس کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب بھی منعقد ہوئی۔اسکول میں زیر تعلیم طلباء و طالبات اور منتظمین نے وامق کی یاد میں احتجاج کے بطوردورزتک اسکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح وہاں درس وتدریس کا کوئی کام نہیں ہوا۔

وادی کے میدانی علاقوں میں اگر چہ موسم کی خوشگواری کے باعث بچوں کو کسی خاص پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تاہم بالائی علاقوں سے اطلاعات ملی ہیں کہ وہاں پہلے ہی روز کافی کم تعداد میں بچوں نے سکولوں میں حاضری دی جبکہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھی ڈیوٹیوں سے غیر حاضر رہی۔ تاریخی مغل روڑ پر واقع ہیرپورہ سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ وہاں اب بھی تین فٹ سے زیادہ برف جمع ہے جس کی وجہ سے وہاں کے سکولی بچوں اور والدین میں زیادہ جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

ضلع کپوارہ،کولگام اور ورمل کے بالائی علا قوں سے بھی ایسی ہی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں کرناہ اور گریز کے نام قابل ذکر ہیں۔اس دوران وادی کے اکثر والدین اس بات کو لیکر مطمئن نظر آئے کہ اْن کے بچوں کے درس وتدریس کے پہلے ہی روز وادی بھر میں موسم خوشگوار تھا جسکے نتیجے میں طلبہ و طالبات کو گھروں سے نکلنے اور اسکولوں تک پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔

والدین تاہم اس بات پر ناراض دکھائی دے رہے تھے کہ اکثر غیرسرکاری تعلیمی اداروں کے منتظمین نے بچوں کی ماہانہ فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے اور ان سکولوں کی جانب سے والدین کو فیس کی نئی شرحوں کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ والدین کی شکایت ہے کہ محکمہ تعلیم کے حکام غیر سرکاری اداروں میں لی جانے والی فیس سے آنکھیں چرا رہے ہیں اور بار بار کی شکایات کے باوجود اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جارہا ہے۔

اپنے 6سالہ بچے کی انگلی پکڑے اشتیاق احمد ساکنہ راجباغ نامی شہری نے بتایا” یہ اچھا ہوا کہ بچوں کی سرمائی چھٹیاں ختم ہوگئیں مگر یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ سکولی منتظمین نے ٹیوشن فیس میں کافی اضافہ کیا ہے“۔اشتیاق احمد جو ایک سرکاری ملازم ہیں، نے غیر سرکاری سکولوں کی تعلیمی پالیسی کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا” غیر سرکاری سکولوں کے منتظمین بچوں کو زیادہ تر کلاس ٹیسٹوں میں مشغول رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ننھے منوں کی دلچسپی میں کمی ہوتی ہے اور وہ سکول جانے سے جی چراتے ہیں،یہ ایک غلط تعلیمی پالیسی ہے جس کی طرف متعلقین کو فوری توجہ دینی چاہئے۔

اس دوران معلوم ہوا ہے کہ محکمہ تعلیم کے ضلع افسران پورے دن کافی مشغول رہے اور وہ مختلف تعلیمی اداروں کی چیکنگ اور انتظامات کا جائزہ لیتے رہے۔ادھر واد ی کے سبھی اضلاع سے موصولہ تفصیلات کے مطابق طلبہ وطالبات کے سکول جانے کے نتیجے میں کافی چہل پہل رہی جبکہ دیہی علاقوں میں بھی والدین اور بچوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔

متعلقہ عنوان :