آئین کسی شخص کی میراث نہیں، تجاوز کرنے والے شخص کے بارے میں آئین میں واضح کردیا گیا ہے، عدالت کو صرف یہ بتایا جائے کہ قانون توڑا گیا یا نہیں، کیاایمرجنسی کے نفاذ کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے والے شخص کو آئین کے تحت یہ حق حاصل تھا یا نہیں،عدالتیں صرف آئین کے تابع ہیں ،سپریم کورٹ کے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین کے ریمارکس،3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ نہ کی جاتی تو پاکستان کے حالات شام اور لبنان جیسے ہوجاتے، عدالت پرویز مشرف کیخلاف اس وقت تک غداری کا مقدمہ نہیں چلاسکتی جب تک وفاق کی جانب سے مقدمہ درج نہ کرایا جائے ، پرویز مشر ف کے وکیل احمد رضا قصوری کے دلائل

پیر 6 مئی 2013 00:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔6مئی۔ 2013ء) سپریم کورٹ میں پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کسی شخص کی میراث نہیں، آئین سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں آئین میں واضح کردیا گیا ہے، عدالت کو صرف یہ بتایا جائے کہ قانون توڑا گیا یا نہیں، کیاایمرجنسی کے نفاذ کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے والے شخص کو آئین کے تحت یہ حق حاصل تھا یا نہیں،عدالتیں صرف آئین کے تابع ہیں جبکہ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ نہ کی جاتی تو ملکی صورتحال شام، لبنان جیسی ہوجاتی، عدالت پرویز مشرف کیخلاف اس وقت تک غداری کا مقدمہ نہیں چلاسکتی جب تک وفاق کی جانب سے غداری کا مقدمہ درج نہ کرایا جائے ،مقدمے کی مزید سماعت( کل) منگل تک کیلئے ملتوی کردی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عاف حسین اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل 3رکنی بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف غداری درخواستوں کی سماعت شروع کی توپرویز مشرف کے وکیل قمر افضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پہلے اس بات پر غور کرے کہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف دائر درخواستیں قابل سماعت ہیں یا نہیں۔ 14 رکنی بنچ کے فیصلے کو غلط رنگ دیا گیا۔

غداری کے حوالے سے دائر درخواستوں سے متعلق عدالت وفاق سے رائے طلب کرسکتی ہے کہ وفاق غداری کا مقدمہ درج کرانے کے حق میں ہے یا نہیں۔ قانون کی خلاف ورزی پولیس افسر سے شروع ہوکر وفاقی حکومت تک جاتی ہے۔ اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی ایک شخص کی میراث نہیں۔ عدالت کو صرف یہ بتایا جائے کہ قانون توڑا گیا یا نہیں، جس شخص نے ایمرجنسی نفاذ کے نوٹیفکیشن پر دستخط کئے۔

کیا اسے آئین کے تحت یہ حق حاصل تھا یا نہیں؟ عدالتیں صرف آئین کے تابع ہیں۔ 58(2)B اب آئین کا حصہ نہیں رہا۔ ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے۔ آئین دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک عدلیہ اور دوسرا پارلیمنٹ پر مشتمل ہے جبکہ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے اپنے دلائل میں کہا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا الزام پرویز مشرف پر ہی لگایا جاسکتا ہے۔

2008ء میں وفاق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہورہے تھے۔ عدلیہ میں شامل ججز ملکی معیشت پر اثرانداز ہورہے تھے۔ پولیس مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی۔ خودکش حملے کئے جارہے تھے۔ ملکی معیشت کمزور تھی۔ قانون نافذ نہ کرنے والے اداروں کا مورال ڈاؤن ہورہا تھا۔ اس وقت کی عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کو کراس کیا جس پر ماسوائے ایمرجنسی لگانے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

2007ء میں ملکی حالات انتہائی خراب تھے۔ پاکستان کو غیر متوازن کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ جب مسلح افواج کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف سے کہا گیا تو انہوں نے اقدام اٹھایا۔ اگر 3 نومبر 2007ء کا اقدام نہ اٹھایا جاتا تو پاکستان کے حالات شام، یمن اور لبنان جیسے ہوجاتے۔ ترقی پذیر ممالک میں مسلح افواج کی طاقت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت کوئی شخص ایف آئی آر درج کرائے تو مجسٹریٹ کے پاس جانا پڑتا ہے۔

یہاں پر شکایت کنندہ وفاق ہے۔ لہٰذا یہ اختیار صرف وفاق کو حاصل ہے کہ وہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ درج کرائے یا نہیں۔ عدالت یہ اختیار نہیں رکھتی۔ پرویز مشرف کیخلاف درخواستوں میں 24 بنیادی نکات کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تاہم یہ درخواست گزاروں کا موقف ہے۔ عدالت وفاق کو کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی جس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی آئین سے تجاوز کرے تو آئین میں اس بارے میں واضح کیا گیا ہے۔ 65ء کی جنگ کی مثال موجود ہے جب مسلح افواج کیساتھ عوام نے بھی ملک کا دفاع کیا۔ مقدمے کی مزید سماعت( کل )منگل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔