افغانستان: خواتین و لڑکیوں کی انصاف تک رسائی تقریباً ناممکن، نادا النشیف

یو این منگل 17 جون 2025 01:00

افغانستان: خواتین و لڑکیوں کی انصاف تک رسائی تقریباً ناممکن، نادا النشیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی نائب ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ناد النشیف نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے انصاف تک رسائی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور انہیں صنفی بنیاد پر انتہائی شدید تفریق کا سامنا ہے۔

نائب ہائی کمشنر انسانی حقوق کونسل کے 59ویں سالانہ اجلاس کے پہلے روز افغانستان کی صورتحال پر خصوصی اطلاع کار رچرڈ بینیٹ کی رپورٹ پر بحث کے شرکاء سے خطاب کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا ہے کہ اگرچہ ملک بھر میں افغانوں کو قانونی ذرائع یا تکالیف اور نقصانات کے ازالے تک خاطرخواہ رسائی نہیں ہے لیکن خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔ وہ محرم (قریبی مرد رشتہ دار) کے بغیر وکلا سے نہیں مل سکتیں، عدالتوں اور دیگر اداروں میں نہیں جا سکتیں اور اگر انہیں کوئی نقصان پہنچے تو وہ تحفظ یا اس کی تلافی کے لیے بھی کسی سے رجوع نہیں کر سکتیں۔

(جاری ہے)

نادا النشیف نے کہا کہ ملک میں طالبان کی حکومت کے تحت لاگو کیے گئے نظام کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آتیں اور اس طرح انہیں تحفظ ملنے کی کوئی حقیقی امید نہیں رہی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے منظم طور پر خارج کر دیا گیا ہے اور بڑی حد تک ان کے بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔

لڑکیاں ثانوی و اعلیٰ تعلیم اور طبی خدمات سے محروم ہیں۔ خواتین نوکریاں نہیں کر سکتیں اور ان سے نقل و حرکت اور اظہار کی آزادی چھین لی گئی ہے۔

UN Photo/Pierre Albouy
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی نائب ہائی کمشنر نادا النشیف (فائل فوٹو)۔

خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی سلبی

نادا النشیف نے کونسل کو بتایا کہ اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آںے کے بعد افغانستان میں گزشتہ حکومت کے دوران قائم کیا گیا نظام انصاف معطل یا ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ لینے والے نئے نظام میں خواتین کو جج کی حیثیت سے کام کی اجازت نہیں، اٹارنی جنرل کا دفتر ختم کر دیا گیا ہے، وکلائے دفاع کے لیے کام کی گنجائش محدود ہو گئی ہے اور ملزموں کے بہت سے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔

نائب ہائی کمشنر نےکہا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں کونسل نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی اطلاع کار کو انصاف اور تحفظ تک خواتین اور لڑکیوں کی رسائی کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا تھا۔ یہ رپورٹ انہیں حصول انصاف کی راہ میں درپیش مسائل کا تفصیلی اخاطہ کرتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انہیں اس ضمن میں کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

© UN Women/Sayed Habib Bidell
ملک میں طالبان کی حکومت کے تحت لاگو کیے گئے نظام کے نتیجے میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آتیں۔

تشدد، اخراج اور محرومی

انہوں نے بتایا کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی، جسمانی طور پر معذور اور گھرانوں کی سربراہ خواتین کو تشدد، اخراج اور محرومی کا خطرہ دیگر سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ایسے نظام کی متاثرین ہیں جس میں خواتین اور لڑکیاں پہلے ہی حقوق اور وقار سے محروم ہیں۔ طالبان کے برسراقتدار آنے سے پہلے ہی بھی افغانستان کے نظام انصاف کو کئی طرح کی کمزوریوں، بدعنوانی اور محدود صلاحیت جیسے مسائل کا سامنا تھا اور دیہی علاقوں میں بڑی حد تک جرگے کی صورت میں انصاف کا متبادل طریقہ رائج تھا لیکن موجودہ حالات پہلے سے کہیں بدتر ہیں۔

نادا النشیف نے امید ظاہر کی کہ کونسل میں ہونے والی بات چیت سے دنیا کی توجہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی جانب مبذول ہو گی اور اس طرح حالات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔