سابق ادوار میں بلوچستان کی جانب توجہ دی جاتی تو آج صوبہ میں امن ہوتا، جماعت اسلامی بلوچستان،

سابق دوادوار حکومت میں صوبہ کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام تک نہیں اٹھایاگیا، صحت و تعلیم تک میسر نہیں،اسلام آباد دھرنا کے باعث بلوچستان و کراچی کے اہم مسائل پس منظر میں چلے گئے، 6اکتوبر کو بلوچستان کے مسئلہ پر قومی کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی، صدر عبدالمتین اخونزادہ کا سینئر صحافیوں سے خصوصی نشست کے دوران اظہار خیال

پیر 15 ستمبر 2014 20:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15ستمبر 2014ء) جماعت اسلامی بلوچستان کے صدر عبدالمتین اخونزادہ نے کہاہے کہ سابق ادوار میں بلوچستان کی جانب توجہ دی جاتی تو آج صوبہ میں امن ہوتا، سابق دوادوار حکومت میں صوبہ کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام تک نہیں اٹھایاگیا، صحت و تعلیم تک میسر نہیں، بنیادی حقوق سے محروم عام شخص بغاوت اترا ہے، قبائلی سرداروں کو بلوچستان کا جوان اسٹیلشمنٹ کا آلہ کار سمجھتاہے،صوبہ میں کوئی فرقہ واریت نہیں ، زائرین کی بسوں پر ہمارے ہی ”دوست“ حملہ آور ہوتے ہیں انہی ”دوستوں“ سے بلوچستان کو بھی خطرات لاحق ہیں، بلوچستان کو ترقی کیلئے 500 ارب کی اشد ضرورت ہے، افسوس آج تک سوئی گیس کی رائلٹی تک صحیح معنوں میں فراہم نہیں کی گئی، آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ایک بلوچ کو بھی وفاقی ملازمت نہیں دی گئی، جام یوسف ، رئیسانی کی حکومتوں کی کارکردگی انتہائی ناقص ڈاکٹر مالک درست میں جارہے ہیں، اسلام آباد دھرنا کے باعث بلوچستان و کراچی کے اہم مسائل پس منظر میں چلے گئے، 6اکتوبر کو بلوچستان کے مسئلہ پر قومی کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر صحافیوں سے خصوصی نشست کے دوران کیا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ وسیع جغرافیہ ہے ملک کا 44فیصد رقبہ پر صرف 10 ملین آبادی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان یکساں توجہ کا طالب ہے اگر سابق ادوار میں پنجاب اور سندھ کی طرح بلوچستان پر بھی توجہ دی جاتی تو یہاں کے حالات اس نہج تک نہ پہنچتے لوگوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں 73 ء کے آئین کے مساوی حقوق دیئے گئے لیکن آج تک ان پر عملدرآمد نہیں ہوا اسی کے باعث کچھ لوگ بغاوت پر مجبور ہوگئے ۔

انہوں نے کہاکہ جب تک بنیادی سہولیات اور ضروریات نہیں فراہم کی جاتیں اس وقت تک بلوچ جوان کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا بلوچستان سونا، معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے سب سے پہلے قدرتی گیس کے ذخائر یہیں سے دریافت ہوئے لیکن افسوس آج تک سوئی گیس کی صحیح رائلٹی صوبہ کو نہیں دی گئی صحت و تعلیم کے شعبوں میں بلوچستان دیگر صوبوں سے کوسوں دور ہے ۔

انہو ں نے کہاکہ امیر جماعت اسلامی نے منتخب ہونے کے فوراً بعد بلوچستان کے تمام حصوں کا دورہ کیا ہے اسلام آباد میں جاری دھرنے سے فارغ ہوکر بلوچستان کی جانب توجہ دینگے اسی سلسلے میں 6 اکتوبر کو اسلام آباد میں بلوچستان بارے قومی کانفرنس بلارہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وفاق نے صوبہ کو تو نظر انداز کیاہی ہے لیکن صوبائی حکومتوں نے بھی کوئی قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا سابق دو ادوار جام یوسف اور رئیسانی کی حکومتیں انتہائی خراب کارکردگی کی حامل تھیں البتہ ڈاکٹر مالک کی حکومت سے کافی حد تک مطمئن ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ آغاز حقوق بلوچستان کو صوبہ میں منفی انداز سے دیکھاگیا کہ اگر آج اتنے برسوں بعد بلوچستان کو حقوق دینے کا آغاز ہورہاہے تو آ ج سے پہلے کیا ہوتا رہا ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ابھی تک وفاقی حکومت کے ذمہ بلوچستان کے6ارب روپے واجب الادا ہیں آغاز حقوق بلوچستان کے تحت سابق حکومت نے 10سالوں کی قسطوں میں 120ارب روپے دینے کاوعدہ کیا تھا اسی منصوبے کے تحت 6ہزار لوگوں کو محکمہ تعلیم میں ضرور بھرتی کیاگیا لیکن وفاق میں ایک آسامی پر بلوچستان کے جوانوں سے پر نہیں کی گئی ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایسی آبادیوں کی کثیر تعداد مل جاتی ہے جہاں صحت و تعلیم کا دور دور تک نشان نہیں صوبے کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کیلئے کم از کم 500 ارب روپے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ آج تک کسی بڑی قبائلی شخصیت نے پاکستان کا جھنڈا نہیں جلایا بلکہ بلوچستان کا جوان اس وقت بغاوت کررہاہے اور وہ قبائلی سرداروں کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار سمجھتے ہیں آج تک جھنڈا جلانے جیسے واقعات بنیادی حقو ق نہ ملنے والے جوانوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں اور بلوچستان میں مزاحمت بھی عام آدمی کررہاہے ۔

انہوں نے کہاکہ پنجگور ، کیچ، آواران، گوادر ، خضدار وغیرہ میں سرداری نظام نہیں ہے ۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ بلوچستان میں فرقہ واریت نہیں ہے تمام لوگ بین المسالک ہم آہنگی میں جکڑے ہوئے ہیں البتہ کچھ دلدوز واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ایک اورسوال پر انہوں نے کہاکہ ہزارہ قبیلہ یا زائرین کی بسوں پر حملے کسی اور نے نہیں ہمارے ”دوست“ کررہے ہیں بلوچستان کو اپنے انہی قریبی ”دوستوں“ سے خطرہ ہے ۔انہوں نے دھرنا کے حوالے سے سوال پر کہاکہ آئین کے دائرے میں مطالبات منظور کئے جائیں اور اسلام آبادکے مظاہرین بھی ملک کی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ دھرنا کے باعث بلوچستان، کراچی اور سیلاب کے مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔