مقبوضہ جموں کشمیر ہائی کورٹ نے گائے ذبح کرنے پر پابندی سے متعلق سابقہ احکامات کو کالعدم قرار دیدیا

تمام بڑے جانوروں کے ذبح اور کاروبارسے متعلق دائر درخواستیں خارج ، چیف سیکرٹری مقبوضہ کشمیر کو درخواستوں سے متعلق مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت

ہفتہ 17 اکتوبر 2015 18:31

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 17 اکتوبر۔2015ء ) مقبوضہ جموں کشمیر سرینگر کی ہائی کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے گائے ذبح کرنے پر قانونی پابندی سے متعلق سابقہ احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام بڑے جانوروں کے ذبح اور کاروبارسے متعلق دائر درخواستیں خارج کر دی ہیں اور چیف سیکرٹری مقبوضہ کشمیر کو درخواستوں سے متعلق مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

ملکی و غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز جموں کشمیر کی ہائی کورٹ میں گائے ذبح کرنے اورگوشت کو فرخت کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی ،درخواستوں کی سماعت ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی ہے بینچ نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ بھارت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور عدالتیں ریاستی حکومت کو کوئی مخصوص قانون وضع کرنے یا اسے کسی خاص پیرائے میں کالعدم قرار دینے کی ہدایت نہیں دے سکتا ،عدالت عالیہ کے سہ رکنی بنچ نے بڑے جانوروں کے ذبح اور انکے گوشت کے کاروبار پر قانونی پابندی کے نفاذ کے حوالے سے سابقہ احکامات کو کالعدم قرار دیا اورساتھ ہی 1947سے قبل بنائے گئے قانوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق سرینگر میں دائر کی گئی مفاد عامہ عرضی کو بھی یہ کہہ کر خارج کیا کہ موجودہ قوانین کے نفاذ یا ان کے حذف وترمیم سے متعلق ریاستی حکومت اقدام کرے نیز اس سلسلے میں پالیسی وضع کرے جس سے بین مذہبی تنازعات نہ پیدا ہوں۔

(جاری ہے)

جمعہ کو جسٹس مظفر حسین عطار ،جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس اتشی ربستان پر مشتمل سہ رکنی فل بنچ کے سامنے عدالت عالیہ کی جموں اور سرینگر میں دائر دو درخواستوں کے کے تناظر میں پیدا شدہ صورتحال پر سماعت ہوئی اور اس سلسلے میں دونوں درخواستوں اور اس حوالے سے اب تک صادر فرمائے گئے احکامات کے تناظر میں بحث ہوئی۔وکلاء کی جرح کو سمیٹتے ہوئے سہ رکنی فل بنچ نے جموں اور سرینگر میں دائر عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے ریاستی چیف سیکریٹری کو اس قانون کے نفاذ سے متعلق لازمی اقدامات کرنے کی ہدایت دی ساتھ ہی1947سے قبل بنائے گئے بڑے جانوروں کے ذبیحہ اور کاروبار سے متعلق قانو ن کو کالعدم قرار دینے یا اس میں ترمیم کیلئے قانون ساز اسمبلی کو بااختیار قرار دیا۔

سہ رکنی بنچ نے کہاکہ یہ قانون ساز اسمبلی کے حد اختیار میں ہے کہ وہ کس طرح اس مسئلے سے جڑی درخواستوں میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دیں اور اس قانون کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کا حق بھی قانون ساز اسمبلی کو ہی ہے۔سہ رکنی بنچ نے اپنے تاثرات میں کہاکہ عدالتیں اس معاملے میں حکومتوں کو یہ ہدایت نہیں دے سکتی ہیں کہ وہ کس قانون کے نفاذ سے متعلق کس طرح کی پالیسی اختیار کرے اور اگر کسی جگہ قانون میں حذف و ترمیم کی ضرورت پیش آئے تو اسکے لئے قانون ساز اسمبلی آئین کے مطابق اپنا کام کرسکتی ہے۔

سہ رکنی بنچ نے واضح کیا کہ بھارت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور یہاں ہر ایک کو آئین کی دفعہ25کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں ان میں مذہب کی پیروی اور اسکی ترویج و اشاعت کا قانونی اختیار بھی شامل ہے۔عدالت عالیہ نے بڑے جانوروں کے ذبیحہ اور کاروبار سے متعلق بحث کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرے اور ایک ایسی پالیسی تشکیل دے جس سے بین مذہبی تنازعات پیدا ہونے کا احتمال ختم ہو۔

واضح رہے کہ 8ستمبر کو عدالت عالیہ کی جموں ونگ میں دائر عرضی کی سماعت کے بعدڈویڑن بنچ نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ زنبیر پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت ریاست میں بڑے جانوروں کے ذبیحہ اور ان کے گوشت کی خریدوفروخت پر پابندی کو سختی کے ساتھ یقینی بنائے۔قریب ایک ہفتے بعد اس معاملے پر سرینگر میں عدالت عالیہ کے ایک اور بنچ کے سامنے مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی جس میں اس معاملے پر دفعہ298A,B,C,D کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی۔

چنانچہ عدالت کے دو بنچوں کی طرف سے ایک ہی معاملے پر دو مختلف فیصلوں سے عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی ہے جس کا ازالہ کرنے کیلئے ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ 5اکتوبر کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ایچ ایل دتْو اور جسٹس امیتوا رائے پر مشتمل بنچ کے سامنے کیس کی سماعت ہوئی اور عدالت نے اس پر حتمی اور غیر معمولی فیصلہ صادر کیا۔

عدالت عظمیٰ کے ڈویڑن بنچ نے بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی سے متعلق8ستمبر کو صادر کئے گئے ریاستی ہائی کورٹ کے فیصلے کو دو ماہ کیلئے التواء میں رکھنے کے احکامات صادر کئے اور اس حوالے سے ریاستی ہائی کورٹ کے ایک اور بنچ کے اْس فیصلے کا حوالہ بھی دیا جو پابندی سے متعلق دفعات کو کالعدم قرار دینے کیلئے دائر کی گئی مفاد عامہ عرضی پر سماعت کے دوران صادر کیا گیا۔

عدالت نے ریاست کے چیف جسٹس کو ہدایت دی کہ وہ دو متضاد فیصلوں سے پیدا شدہ تنازعہ حل کرنے کیلئے سہ رکنی بنچ تشکیل دیں۔ سپریم کورٹ کی انہی ہدایات کے تناظر میں جموں کشمیر کے چیف جسٹس، جسٹس این پال وسنتھا کمار نے سہ رْکنی بنچ تشکیل دیا جو عدالت عالیہ کے دونوں فیصلوں اور دیگر قانونی امور کا جائزہ لیکر اس کیس کی سماعت کرے گا۔اس دوران ریاستی ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ پریموکش سیٹھ نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کو لیکر ایک اور پٹیشن دائر کی۔

ایڈوکیٹ پریموکش سیٹھ ریاست کے ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل تھے اور حکومت نے حال ہی میں انہیں ایک اور سینئر ایڈوکیٹ سمیت بڑے گوشت پر پابندی سے متعلق کیس کا دفاع نہ کرنے کی پاداش میں برطرف کردیا۔انہوں نے اپنی پٹیشن میں بتایا کہ اگر تین رکنی بیچ کے ذریعے کیس کی سماعت سرینگر میں انجام دی گئی تو اس سے امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے، لہٰذا کیس کی سماعت جموں یا ریاست سے باہر کرائی جائے۔

تاہم عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس، جسٹس ایچ ایک دتْو اور جسٹس ارْون مشرا پر مشتمل بنچ نے یہ پٹیشن مسترد کردی۔چیف جسٹس ایچ ایل دتْونے عرضی دہندہ کو اس بات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے معاملے کی نسبت منگل کی شام جموں کشمیر کے چیف جسٹس ،جسٹس این پال وسنتھا کمار سے بات کی اور انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ کیس کی سماعت سرینگر میں ہونے سے امن و قانون کا مسئلہ درپیش آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :