ادارہ فروغِ قومی زبان کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی کتاب’’روشنی کے سفیرکی تقریب رونمائی

منگل 15 مئی 2018 23:51

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2018ء) ادارہ فروغِ قومی زبان کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی کتاب’’روشنی کے سفیر(پاکستان کے مثالی اساتذہ)‘‘کی تقریب رونمائی ادارے کے مرکزی ہال میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں استقبالیہ کلمات افتخار عارف ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان نے ادا کیی جبکہ تقریب کی صدارت ممتاز استاد و سکالر پروفیسر فتح محمد ملک نے کی۔

مہمانانِ خاص میں عرفان صدیقی، مشیر برائے وزیراعظم ، ڈاکٹر ثمینہ امین قادر، وائس چانسلرفاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی اور ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی ، ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، انجینئر عامر حسن، وفاقی سیکریٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن شامل تھے۔افتخار عارف نے مہمانوں کوخوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کا آئیڈیا عرفان صدیقی صاحب کا تھا۔

(جاری ہے)

ہمیں خوشی ہے کہ انھوں نے جو ذمہ داری مجھ کو سونپی وہ ہم نے ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے آئندہ اس سلسلے کی سیریز کی مزید کتابیں بھی شائع کی جائیں گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت کے اساتذہ طلبہ کے ذاتی مسائل بھی حل کرتے تھے اور ان اساتذہ کی یادتازہ کرنے کی جانب پہلا قدم افتخار عارف نے اسی کتاب کی اشاعت کے ذریعے اٹھایا۔

وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم ایسے اساتذہ کو بھی جانتے ہیں جنھوں نے نہ صرف کمرہ جماعت میں پڑھایا بلکہ ان کے اثرات کئی نسلوں پر محیط ہیں، ان اساتذہ نے علم و ادب کو مالا مال کیا۔ یہ کتاب انہی اساتذہ کو یاد کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے، جو نام رہ گئے ان کو آئندہ اشاعتوں میں شامل کر لیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ نہ صرف ادب بلکہ سائنس اور دینی مدارس کے اساتذہ کو بھی بلا تفریق شامل کیا جائے۔

اس سلسلے میں ایک مشاورتی کمیٹی بھی بنائی جائے جو آئندہ اشاعتوں کو نظرثانی کرے۔پروفیسر یٰسین یوسف زئی نے اپنے پشین (بلوچستان)کے ایک استاد کے مثالی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں آج تک انہی کے نقش قدم پر چل رہا ہوں کیونکہ یہ میرے والد کی نصیحت تھی۔ انھوں نے کہا کہ آج کے طلبہ میں برداشت کی کمی کی وجہ اساتذہ میں طلبہ سے دوری ہے، مگر افتخار عارف نے اس کتاب کے ذریعے اس دوری کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

پروفیسر ثمینہ امین قادر نے اساتذہ کی معاشرتی ترقی میں کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتا ہے۔ استاد کی حیثیت عطر کی طرح ہے جس سے آپ بغیر چھوئے خوشبو حاصل کر تے ہیں۔ انجینئر عامر حسن،وفاقی سیکریٹری ،قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، نے کہا کہ میرے والد اور والدہ دونوں استاد تھے اسی وجہ سے اس کتاب ’’روشنی کے سفیر‘‘ میں موجود کئی اساتذہ سے میرا ذاتی تعلق تھا۔

اس کتاب کا مسودہ جب میرے پاس آیا تو اس میں میرے والد کا نام بھی شامل تھا جو ابتدا میں میں نے کاٹ دیا مگر پھر عرفان صدیقی کی خواہش پر کہ آپ کے والد کا نام بھی اس قابل ہے کہ اس کتاب میں شامل کیا جائے، شامل کر لیا گیا۔پروفیسر جلیل عالی،نے کتاب کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ پہلوؤںکی جانب بھی توجہ دلائی ، انھوں نے کہا کہ اس کتاب کے تھیم کے مطابق استاد کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کے پڑھانے کے طریقے اس کے خاص تکیہ کلام اس کے طلباء کے ساتھ تعلق اور اپنے پیشے کے ساتھ لگاؤ کا ذکر کیا جائے تو بہتر ہوتا۔

معروف براڈ کاسٹرسیداختر وقار عظیم نے کہا کہ میرے والد بھی استاد تھے اور میں جانتا ہوں کہ ایک استاد کو اس مقام پر پہنچنے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ میرے والد نہ صرف اپنے شاگردوں کو پڑھاتے بلکہ ان کے ذاتی مسائل بھی حل کرتے۔ صدر شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب جس میں چار نسلوں کے اساتذہ کا ذکر ہے۔

پروفیسر قیصرہ علوی نے کہا کہ استاد کا اصل سرمایہ وہ اذاہان ہیں جن کی وہ تربیت کرتا ہے۔ نمل یونیورسٹی شعبہ اردو کے استادڈاکٹر عابد سیال نے کہا کہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اردو ادب کے طالب علم اور ایک استاد ہونے کے تاتے تذکرہ نگاری میں زیادہ تر شاعروں ، تاریخ میں بادشاہوں اور سائنس دانوں کا ذکر ملتا ہے مگر میری معلومات میں استادوں کے تذکرے سے متعلق یہ پہلی کتاب ہے۔تقریب کی نظامت علی یاسر نے کی۔تقریب میں جڑواں شہروں کی جامعات کے اساتذہ اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔