پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ مسلسل دوسری باری سندھ کے وزیراعلی منتخب

مراد علی شاہ نے 97جبکہ ان کے مدمقابل شہریار مہر نے 61ووٹ حاصل کئے،تحریک لبیک اورنے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا آج کل لوگ تبدیلی کی بات کررہے ہیں لیکن تاریخ بھول جاتے ہیں،وہ دور یاد ہے جب لوگوں کی زبان بند کردی جاتی تھی،مراد علی شاہ کا ایوان میں خطاب

جمعرات 16 اگست 2018 23:44

پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ مسلسل دوسری باری سندھ کے وزیراعلی ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2018ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ مسلسل دوسری باری سندھ کے وزیراعلی منتخب ہوگئے ہیں۔انہوں نی97ووٹ جبکہ ان کے مدمقابل متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار شہریار مہر نے 61ووٹ حاصل کئے۔نومنتخب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آج کل لوگ تبدیلی کی بات کررہے ہیں لیکن تاریخ بھول جاتے ہیں۔

جمعرات کو سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت شروع ہوا،اجلاس میں وزیر اعلی کے لیے ووٹنگ کی گئی۔سندھ اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے رائے شماری شروع ہوئی تو مراد علی شاہ کو ووٹ دینے والوں کے لیے دایاں دروازہ مختص کیا گیا اور اسپیکر نے حکم دیا کہ مرادعلی شاہ کو ووٹ دینے والے ارکان دائیں دروازے کی طرف جائیں جبکہ شہریار مہر کو ووٹ دینے والے ارکان بائیں دروازے کی جانب جائیں گے، اس موقع پر سیکریٹری سندھ اسمبلی نے ارکان کے نام پکار کر انہیں کارڈز دیئے۔

(جاری ہے)

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ارکان اسمبلی کو دیئے جانے والے کارڈز کی گنتی کی گئی۔رائے شماری میں 158 ارکان نے حق رائے دہی استعمال کیا۔سید مراد علی شاہ نے 97جبکہ شہریار مہرنی61ووٹ حاصل کیئے جبکہ تحریک لبیک کے 3ارکان اورمتحدہ مجلس عمل کے رکن اسمبلی سید عبدالرشیدنے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔متحدہ اپوزیشن کی دو خواتین ارکان شاہینہ اشعراورڈاکٹر سیما ضیا نے تاحال رکنیت کا حلف نہیں اٹھاجبکہ پی ٹی آئی کے دو ارکان عمران اسماعیل اور راجہ اظہر بھی اسمبلی نہیں پہنچے۔

سید مراد علی شاہ سیہون کی صوبائی نشست پی ایس 80 اور شہریار مہر پی ایس 8 شکارپور سے کامیاب ہوئے تھے۔ سندھ اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد خطاب کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آج کل لوگ تبدیلی کی بات کررہے ہیں لیکن تاریخ بھول جاتے ہیں۔ میرے والد نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی قابلیت اور محنت سے ملک حاصل کی مگر ان کے بعد ملک بدقسمتی سے غلط سمت میں چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا،اس وقت بھی ملک بہت کٹھن حالات سے گزر رہا تھا ،وہ دور یاد ہے جب لوگوں کی زبان بند کردی جاتی تھی،آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو آگے بڑھایا۔انہوں نے کہا کہ جب بے نظیر بھٹو ہم سے جدا کردی گئیں تو بھی ملک بہت مشکل میں تھا،جب ہم نے حکومت نہیں بنائی تب بھی سب سے زیادہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی ملے،اس بار پیپلزپارٹی کے ووٹ میں 20 فیصد اضافہ ہوا، سندھ کے عوام نے ہر بار پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا۔

2013میں 32 لاکھ ووٹ لیے تھے اور اب 39لاکھ ووٹ لیے۔اس ایوان میں ہماری دو تہائی اکثریت ہونی تھی جو چھینی گئی۔انہوں نے کہا کہ شہیدبھٹونوے ہزارقیدیوں کو واپس لائے،اگرانہیں شہید نہیں کیاگیا ہوتا توآج ہمارا ملک کہاں ہوتا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں کوئی جگہ ایسی نہیں کہ دل کے مریض کو ایک گھنٹے کے اندر طبی امداد نہ ملے،سندھ کے عوام جانتے ہیں کہ کونسی جماعت ان کا درد سمجھتیہے۔

ہمارے خلاف یہ پروپیگنڈا نہیں تھا کہ ہم کام نہیں کرتے۔مسائل بہت ہیں لیکن آپ کو کراچی میں فرق نظر آئے گا۔واضح رہے کہ مراد علی شاہ دوسری بار وزیر اعلی منتخب ہوئے جبکہ پہلی بار 2016 میں منتخب ہوئے تھے۔جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلی عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیے گئے۔

ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمنٹرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کر دیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے سید مرادعلی شاہ امریکہ کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول اسٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔

حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔وہ وزیرِ اعلی نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔