اپوزیشن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر میرا نام اس لئے پیش کیا گیا شائد میں پیپلز پارٹی کیلئے قابل قبول ہوں، مولانا فضل الرحمن

سابق صدر آصف زرداری پرانے دوست ہیں ، ان کیساتھ تعلقات کو نہ تو میں ،نہ ہی میں کبھی انہوں نے کسی سے مخفی رکھا پیر صاحب پگارا نے ہمیشہ کی طرح بہت زیادہ شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا ،کنگری ہائوس سے مطمئن ہوکر جارہاہوں، میڈیا سے گفتگو

بدھ 29 اگست 2018 22:16

اپوزیشن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر میرا نام اس لئے پیش کیا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اگست2018ء) جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کا نام اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ شاید میں پیپلز پارٹی کے بھی قابل قبول ہوں، سابق صدر آصف زرداری میرے پرانے دوست ہیں ان کے ساتھ جو تعلقات ہیں انہیں نہ تو میں اور نہ ہی میں کبھی انہوں نے کسی سے مخفی رکھا،پیر صاحب پگارا نے ہمیشہ کی طرح بہت زیادہ شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا او ر میں کنگری ہائوس سے مطمن ہوکر جارہاہوں۔

انہوں نے یہ بات بدھ کو کنگری ئوہاس میں جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا سے ملاقات کے بعد پیر صدر الدین شاہ راشدی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن اپنی صدارتی مہم کے سلسلے میں جی ڈی اے کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کنگری ہائوس پہنچے تھے ان کے ہمراہ جے یوآئی سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو، اسلم غوری،مولانا عبدلکریم اور دیگر بھی تھے جبکہ ملاقات میں پیر پگارا کی معاونت ان کے بھائی پیر صدرالدین شاہ راشدی اور ایم این اے غوث بخش مہر نے کی۔

ملاقات کے دوران ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور آئندہ صدارتی الیکشن کے حوالے سے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔بات چیت کے دوران پیر پگارا نے مولانا فضل الرحمن کی کنگری ہاس آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا ور کہا کہ ہمیں بہت تاخیر سے اس بات کا علم ہو اکہ آپ بھی صدارتی امیدوار ہیں ۔انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ ان کی جانب سے پیش کردہ موقف کو جی ڈی اے کے دوسرے ساتھیوں کے سامنے رکھا جائے گا۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صدارت کے پہلے مرحلے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان ٹینشن پیدا ہوگئی تھی ،متحدہ اپوزیشن کی طرف سے مجھے پل کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو متفقہ امیدوار لانے کے لئے دو دن کا وقت دیاتھالیکن وہ متفق نہیں ہوئے،اپوزیشن کی جانب سے میرا نام اس لئے تجویز کیا کہ شاید پیپلزپارٹی کے لئے بھی میں قابل قبول ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پیر صاحب پگارا نے ہمیں مثبت جواب دیا ہے تاہم وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے ہمیںمطلع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن میرے دوست ہیں ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کی ہے۔اگر ن لیگ اعتزاز احسن پر متفق ہوجاتی تو اعتراض نہ ہوتا، کوشش کررہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو قائل کرلیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان صدارتی امیدوار کے معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث اپوزیشن کو اپنا امیدوار سامنے لانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ایوان کی بڑی جماعت ہے لیکن اکثریتی نہیں،ہم انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کے باعث پارلیمنٹ میں نہیں جانا چاہتے تھے لیکن جب دوبڑی جماعتوں پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تو ہمیں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑی۔مولانا فضل الرحمن سے ایک صحافی نے دریافت کیا کہ صدارتی الیکشن سے قبل آصف زرداری کے خلاف جس طرح مقدمات سامنے آرہے ہیں کیا وہ ان کے باعث وہ کسی قسم کی ڈیل کی کوشش کررہے ہیں جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں اپنے دوست کے حوالے سے کسی مشکل سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔

آصف زرداری کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی سے مخفی نہیں ہیںجسے نہ وہ چھپاتے ہیں اور نہ ہی میں مخفی رکھتا ہوں۔انہوں نے بتایا کہ ناموس رسالت کے معاملے پر کسی مصلحت کا مظاہرہ نہیں کیاجاسکتا ،ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہم 9ستمبر کو لاہور میں مارچ کررہے ہیں.مولانا فضل الرحمن نے تحریک لبیک کے لانگ مارچ کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ اظہار خیال کی آزادی ہے مگر شان رسالت میںکسی کوگستاخی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

اس موقع پر جی ڈی اے کے رہنما پیر صدرالدین شاہ راشدی نے میڈیا کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بہت خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی ہے ان کی جانب سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ جی ڈی اے کے سامنے رکھ کر جو بھی فیصلہ ہوا انہیں مطلع کردیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم مضبوط فیڈریشن چاہتے ہیں ایسا کوئی جملہ ادا نہ کرنا چاہتے کہ فیڈریشن کمزورہو۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کنگری ہاس سے کیا ہے۔پیرپگارا اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات کے دودور ہوئے دوسرے دور میںدونوں جماعتوں کے دیگر رہنما شریک نہیںتھے۔