Live Updates

ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے،

پاکستان اور امریکا کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے باہمی اعتماد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں، اس قسم کا تاثر قائم کرنے سے پہلے خود وہاں جا کر جائزہ لینا ضروری ہے، امریکی ارکان پارلمینٹ جہاں جانا چاہیں سہولت فراہم کریں گے دوطرفہ ملاقاتوں میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایشو پر بھی بات کی گئی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس کی تقریب سے خطاب

جمعرات 4 اکتوبر 2018 13:05

ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے،
واشنگٹن ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اکتوبر2018ء) پاکستان اور امریکاکو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے باہمی اعتماد میںاضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورہ امریکا کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کے حکام سے پاک امریکا دوطرفہ رابطوں کے فروغ کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کے تاریخی تعاون کی بنیاد پر باہمی اعتماد میں اضافہ کریں تاکہ جنگ سے متاثرہ افغانستان میں امن و استحکام سمیت مشترکہ مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں تبدیلی کی مثبت توقعات کے ساتھ واپس جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے مقاصد کو انفرادی طور پر حاصل نہیں کرسکتے بلکہ میرے نقطہ نظر میں ہمیں مشتترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی تاریخ بڑی وسیع ہے اور ان کو تاریخی روابط کی اہمیت کے پیش نظر وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہو گا اور تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ سرد جنگ، سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء اور القاعدہ کے خاتمہ کے لئے جب بھی دونوں ممالک نے مل کر کام کیا تو اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ باہمی تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور پاک امریکا دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے گزشتہ دو سال مشکل تھے لیکن قیام امن، تعمیرنو اور استحکام کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے دونوں ممالک اپنے تعلقات میں مزید بہتری لا رہے ہیں۔

امریکی حلقوں میں پاکستان پر کی جانے والی تنقید کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ رویہ نامناسب ہے اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کی معاونت کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معاونت سے امریکا کے اربوں ڈالر کی بچت ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ سالوں کے دوران پاکستان کے راستے امریکا کے پانچ لاکھ سے زائد کنٹینرز گئے ہیں اور ہم نے ان پر کسی قسم کاکوئی ٹیکس عائد نہیں کیا بلکہ سامان کی ترسیل کو سفارتی سامان کے طور پر ملک سے گزرنے دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی افواج نے 950 القاعدہ رہنمائوں کو مارنے کے ساتھ ساتھ 1100 سے زائد مطلوب دہشت گرد بھی امریکا کے حوالے کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں مشکلات کا الزام پاکستان پر عائد کرنا درست نہیں کیونکہ افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان کے اپنے مسائل ہیں جو وہاں کی صورتحال کے نتاظر میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے ہم کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزامات کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ سرحد کے اس پار افغانستان میں ان کے ٹھکانے موجود ہیں جس پر پاکستان کو تشویش ہے تاہم پاکستان میں اس قسم کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔

افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 87 فیصد اضافے پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان کے لئے یہ بات بھی باعث تشویش ہے۔ وزیرخارجہ نے امریکا کے اراکین پارلیمان کو پاکستان کے دورہ کی دعوت دی اور کہا کہ وہ قبائلی علاقوں میں اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر صورتحال کا جائزہ لے سکتے ہیں جس سے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کی کامیابیوں کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

انہوں نے امریکی قانون سازوں کو پیشکش کی کہ وہ جہاں جانا چاہیں ہمیں بتائیں اور پاکستان کی حکومت ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرے گی اور وہ خود جا کر جائزہ لیں کہ کہیں بھی دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ موجود نہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی قسم کا تاثر قائم کرنے سے پہلے ان کا وہاں جا کر خود جائزہ لینا ضروری ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے نقطہ نظر کا اعادہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم افغانستان میں ایک جمہوری، ترقی پسند اور پرامن حکومت کے خواہشمند ہیں اور اس بات کا فیصلہ بھی افغان حکومت کو کرنا ہے کہ ہمارے افغانستان میں کسی قسم کے کوئی مفادات نہیں ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہاکہ اس وقت بھی پاکستان میں 27 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور پاکستان میںامن و استحکام کے لئے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق ان کی واپسی ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں جس کے لئے رواں سال جولائی میں افغانستان ، پاکستان، ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیرٹی (اے پی اے پی پی ایس) کا آغاز کیا ہے۔

انہوں نے ملک کی مشرقی سرحد پر ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے کہاکہ پاکستان نے مغربی سرحد پر 2 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کئے ہیں جبکہ قبائلی علاقہ جات کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے ملٹری آپریشنز بھی جاری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایک نئی حکومت اقتدار میں آئی جو سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے لوگوں کے لوگوں سے روابط کے فروغ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اگر سرحد کی دونوں جانب امن نہ ہو تو اس سے مقاصد کا حصول مشکل ہے کیونکہ ہم امن وسلامتی کے خواہش مند ہیں جو ہماری اولین ترجیح ہے۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ خوش قسمتی سے افغانستان، پاکستان اور امریکا افغانستان کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں اور ہمیں اس سے استفادہ کرناچاہیے اور مذاکرات سے مسائل کا خاتمہ ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ اس حوالے سے پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو راتوں رات ممکن نہیں تھا۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کی ہیں جس کی وجہ سے یہ عوام کے تاثر میں نمایاں تبدیلی کے ساتھ مسلح افواج ، معصوم شہریوں اور سکول کے بچوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خاتمہ کے حوالے سے مؤثر حکمت عملی کے تحت اقدامات کئے گئے ہیں اور ملک کی تمام سیاسی قیادت کی مشاوت سے اس حوالے میں بھی باقاعدہ ترمیم کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان میں تبدیلیوں کا اعتراف کرناچاہیے اور اس سلسلہ میں تضادات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان کی سکیورٹی امداد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تربیت مواقع اور جدید ترین آلات کی فراہمی میں رکاوٹ سے دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور امریکا کے باہمی اعتماد میں کمی کے خاتمہ کے لئے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اور امریکاکم و بیش مشترکہ مقاصد اور حکمت عملی ہے جس کو کامیاب بنانے کے لئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر اعتماد میں اضافہ کرناہو گا۔

امریکا کے دورہ کے دوران مختلف ملاقاتوں اور دیگر تقریبات میں شرکت کے حوالے سے پاکستانی سفارتخانہ میں وفاقی وزیر نے میڈیا کو بریفنگ دی اور کہا کہ ان کا دورہ انتہائی کامیاب رہا اور انہوں نے افغانستان سمیت خطے کا امن و سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے باہمی تعلقات مزید بہتر بنائیں۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے نقطہ نظر کو مؤثر طورپر پیش کرنے کے لئے پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی کو ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہاکہ دوطرفہ ملاقاتوں میں جب بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کیس پر بات ہوئی تو اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایشو پر بھی بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا فیصلہ پاکستان کے قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ بعدازاں وفاقی وزیر اپنے دورہ کے اختتام پر پاکستان روانہ ہو گئے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات