سینیٹر سید شبلی فراز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس اینڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس

بدھ 17 اکتوبر 2018 21:13

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اکتوبر2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس اینڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید شبلی فراز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی30 اگست2018ء کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کا معاملہ برائے سبزیاں اور فروٹ کی درآمد کی وجہ سے بلوچستان کے زمینداروں کو درپیش مسائل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، بلوچستان ملک کا پسماندہ اور کم ترقی یافتہ صوبہ ہے، بلوچستان اور اس کی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان میں جب فصلیں تیار ہو جاتی ہیں تو اپنی جیبیں بھرنے کیلئے بارڈر کو کھول دیا جاتا ہے جس سے زرعی اجناس اور خاص طور پر سبزیوں اور فروٹ کی بھرمار بھارت، افغانستان اور ایران سے ہو جاتی ہے اور بلوچستان کی اجناس کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہوتا ۔

گزشتہ برس ایوان بالا کی سفارش پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے زمینداروں کو فائدہ ہوا تھا مگر دوبارہ بارڈر کھولنے سے بلو چستان کے کسانوں اور زمینداروں کو مسائل کا سامنا ہے۔ بلوچستان زرعی اجناس سے پاکستان کی ضرورت پوری کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا مال افغانستان کا لیبل لگا کر پاکستان میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ایران کے مال کی بھی بھرمار ہے۔

گزشتہ روز گوجرانوالہ میں سبزیاں اور فروٹ سے بھرے 22 غیر قانونی ٹرک پکڑے گئے۔ بوریوں پر افغانستان لکھا ہواتھا۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں12 لاکھ ٹن سیب پیدا ہوتا ہے جبکہ ملک کی ضرورت 10 لاکھ ٹن ہے۔ صوبہ بلوچستان میں 3 لاکھ ٹن انگور، 5 لاکھ ٹن پیاز اور 5 لاکھ ٹن کجھور پیدا ہوتی ہے مگر پھر بھی مارکیٹ میں ایران کی کجھور سمگل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی زمیندار بہت متاثر ہو رہے ہیں۔

حکومت ایسا طریقہ کار مرتب کرے کہ مقامی زمیندار متاثر نہ ہوں۔ قائمہ کمیٹی سفارش کرے جس طرح گزشتہ برس بلوچستان میں فصلیں تیار ہونے پر درآمدات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، دوبارہ پابندی عائد کی جائے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے وہاں کی عوام کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میںکولڈ سٹوریج اور گودام قائم کئے جائیں تاکہ اجناس کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میںکوئی بھی پیداوار بغیر پرمٹ کے نہیں آسکتی۔ اجناس کی سمگلنگ سے آنے والی زرعی بیماریاں بھی ملک میں فصلوں کو تباہ کرتی ہیں۔ افغانستان کے راستے سے درآمدات کو جب روکا گیا تو افغانستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان آیا اور صرف پرمٹ والی اور افغانستان میں پیدا ہونے والی اشیاء کو پاکستان میں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ افغانستان سے آنے والا چھالیہ کینسر کا سبب بنتا ہے۔ افغانستان سے ٹماٹر25.6 ملین ڈالر اورایران سے 4 ملین ڈالر کا امپورٹ ہوتا ہے۔ پیاز افغانستان سے 13 ملین ڈالر اور ایران سے 1 ملین ڈالر، سیب افغانستان سے 25 ملین ڈالر، ایران سے 8 ملین ڈالر درآمد کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اب جو بھی چیزیں باہر سے آتی ہیں ان کا لیب ٹیسٹ کیا جاتا ہے پاکستان میں4 لیبارٹریوں کو آئوٹ سورس کیا گیا ہے۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ تفتان اور طورخم بارڈرز پر چیک کرنے والے حکام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افغانستان بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یک طرفہ پابندی نہیں لگا سکتے۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہاکہ اجناس کا معیار چیک کرنے والے پیرا میٹرز بھی ان لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمرشل امپورٹرز کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی بجائے خود سے ڈالر کا انتظام کرنا چاہئے، وہ اپنی درآمدات کیلئے حکومت کا پیسہ استعمال نہ کریں۔

سیکریٹری کامرس نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں درآمد ہونے والی اجناس پر آر ڈی لگا دی گئی ہے۔ پلانٹ کے تحفظ کی گنجائش کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2016ء میں بھارت سے 17 ارب روپے کا ٹماٹر درآمد کیا گیا اور ملک کے زمینداروں کی بہتری کیلئے 2018ء میں اس پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ اجناس کی درآمدات کو روکا جائے، پاسکو بلوچستان کے زمینداروں سے سبزیاں اور فروٹ خریدے اور اس کی کم سے کم قیمت مقرر کی جائے جس طرح باقی صوبوں میں پاسکو یہ کام سرانجام دیتا ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر ز نزہت صادق ، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، عطاء الرحمان، ، نعمان وزیر خٹک، اورنگزیب خان، احمد خان اور میر کبیر احمد محمد شاہی کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹری کامرس، ڈی جی ٹریڈ پالیسی،کمشنر نیشنل فوڈ سیکورٹی، چیف کسٹم ایف بی آر، سیکریٹری کسٹم ایف بی آر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔