شہید مولانا سمیع الحق کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا ،متضاد بیانات سے گریز کیا جائے ،مجلس شوری جے یو آئی (س)

مو لانا کی شہادت کوئی اندرونی مسئلہ نہیں ، افغانستان اور انڈیا و بیرونی عناصر کی سازشیں اس میں بہت حد تک شامل ہیں،کچھ عناصر اور حلقوں کی جانب سے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے کچھ متضاد قسم کے بیانات جاری کررہے ہیں،جو حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہیں،ریاست مو لانا کے قاتلوںکو گرفتار کر کے کٹہر ے میں لائے ،(آج)تعزیتی اجتماع ہو گا،پالیسی بیان جاری

اتوار 4 نومبر 2018 19:20

شہید مولانا سمیع الحق کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا ،متضاد ..
#اکوڑہ خٹک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 نومبر2018ء) جامعہ دارالعلوم حقانیہ،جمعیت علمائے اسلام (س) کی مجلس شوریٰ اور خاندان حقانی نے واضح کیا ہے کہ شہید مولانا سمیع الحق کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا ،مو لانا کی شہادت کوئی اندرونی مسئلہ نہیں ، افغانستان اور انڈیا و بیرونی عناصر کی سازشیں اس میں بہت حد تک شامل ہیں،کچھ عناصر اور حلقوں کی جانب سے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے کچھ متضاد قسم کے بیانات جاری کررہے ہیں،جو حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہیں، جب تک تمام ادارے تحقیق کے بعد کسی نتیجے تک نہ پہنچے اس وقت تک بے بنیاد بیانات دینے سے گریز کیا جائے،ریاست مو لانا کے قاتلوںکو گرفتار کر کے کٹہر ے میں لائے (آج)تعزیتی اجتماع ہو گا۔

اتوار کو جامعہ دارالعلوم حقانیہ،جمعیت علمائے اسلام (س) کی مجلس شوریٰ اور خاندان حقانی نے مولانا سمیع الحق شہید کی شہادت کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا سمیع الحق ؒ ایک بین الاقوامی اور عالمگیر شخصیت تھے، وہ نہ صرف ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کے مہتمم اور سیاسی جماعت کے امیر تھے بلکہ اس وقت ساری دنیا میں اسلامی بیداری اور انقلابی تحریکات کے سرپرست اور پشتیبان تھے، خصوصاً جہاد افغانستان کے تمام ادوار اور خصوصا مجاہدین لیڈروں کی آپس کی چپقلش مٹانے ، صلح جوئی میں نمایاں کردار ادا کیا اسی طرح تحریک طالبان افغانستان کے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے پرزور حامی رہے ، اسی لئے مغربی دنیا اور افغان گورنمنٹ انہیں ’’فادر آف طالبان‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے جبکہ انہوںنے تمام عمر قیام امن ،صلح اور افغانستان کے متحارب گروپوں کے درمیان مذاکرات کی بھرپور کوشش کی تھی۔

(جاری ہے)

اسی طرح پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں موثرکردار ادا کیا ، سیاسی لحاظ سے حضرت مولانا اپنے عظیم والد صاحب ؒکے ساتھ ۰۷۹۱ء سے سرگرم عمل تھے، پھر ۱۸۹۱ء سے وفاقی مجلس شوریٰ اور تین بار سینٹ آف پاکستان کے ۸۱ سال ممبر رہے ۔ لیکن اس تمام سیاسی کیئریر میں آپ نے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی ہمیشہ کھل کر مخالفت اور تعمیری تنقید جاری رکھی اس کے ساتھ آئین میں اسلامی ترامیم و دفعات کو شامل کیا اور دستور سازی میں زبردست کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ چون (۴۵)سالہ علمی ،ادبی اور صحافتی سفر میں بھی درجنوں کتابیں ،ہزاروں صفحات تحریر کیں۔ زندگی کے لمحات تک قرآن کریم کی شہرہ آفاق تفسیر’’تفاسیر امام لاہوری ‘‘ کی تقریباً سات ہزار تک خود ایڈٹ و مرتب کیں اور جس میں درجنوں کتابیں اردو،انگلش ،عربی،فارسی، پشتومیں شائع کیں ۔ اس ہمہ گیر ،شخصیت نڈر اسلامی رہنما کی پوری زندگی جہد مسلسل اور اعلائے کلمة الحق میں گزری ۔

کچھ عرصہ سے افغانستان کی حکومت تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ صلح کیلئے مولانا سمیع الحق کے ساتھ رابطے میں تھی لیکن مولانا نے مذاکرات کے لئے حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے موقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک افغانستان سے بیرونی قوتوں کا انخلاء نہیں ہوتا،اوروہاں پر مستقل بنیادوں پر امن کا قیام مشکل ہے اور طالبان حتمی مذاکرات کیلئے کھلے دل سے رضا مند نہیں ہوں گے ،ابھی پچھلے ماہ یکم اکتوبر کو افغان سرکاری وفد سے دوبارہ اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا اس میں ناکامی کے بعد افغان حکومت اور اس کے میڈیا چینل دارالعلوم حقانیہ اور مولانا سمیع الحق کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے رہے ۔

اس عظیم سانحہ کے فوراً بعد پوری عالم اسلام میں دکھ اور غم کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن افغانستان کے اکثر و بیشتر چینل اور خصوصاً سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا ۔اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ، جس پر ہم سب انتہائی غمزدہ اور دکھی ہیں ۔مولانا سمیع الحق شہید کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا،مدرسہ حقانیہ سے لیکر جمعیت علمائے اسلام تک ،دفاع پاکستان کونسل سے لیکر دیگر اسلامی تحریکوں تک ،خاندان سے لے کر اہل علاقہ تک سب سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔

سیاست میں حصہ لینے کے باوجود اپنی اعلیٰ ظرفی اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے تمام طبقات میں یکساں محبوب و مقبول رہے ،مولانا مرحوم شہید پر جس بہیمانہ اور سفاکانہ انداز سے حملہ کیا گیا وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ہمیں انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے کچھ عناصر اور حلقوں کی جانب سے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے کچھ متضاد قسم کے بیانات جاری کررہے ہیں،جو حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہیں۔

جب تک تمام ادارے تحقیق کے بعد کسی نتیجے تک نہ پہنچے اس وقت تک بے بنیاد بیانات دینے سے گریز کیا جائے، مولانا کی شہادت کو گروہی یا ذاتی تنازعہ کا نام دینا انتہائی بے بنیاد ہے ۔ہزاروں لوگ ،ان کی جماعت او ردارالعلوم حقانیہ سمیت خاندان حقانی سمیت اس پر شاہد ہے،ان کی شہادت کوئی اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ افغانستان اور انڈیا و بیرونی عناصر کی سازشیں اس میں بہت حد تک شامل ہیں۔

اور مولانا کی شہادت پر ان کی خوشی کی خبر ہمارے خدشات کو مزید تقویت دے رہے ہیں ،لہٰذا ہم سب ملک کے تمام مقتدر حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوراً مولانا شہید کے اصل قاتلوں کو پکڑ کر قاتلوں کی نشاندہی کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔گزشتہ دو دن سے اتنے بڑے مجمع اور مذہبی جماعتوں کو ہم نے پر امن رہنے کی تلقین کی ہے، ہمیں امید ہے کہ ریاست کی طرف سے فوری اقدامات کئے جائیں گے ۔ دوسری طرف دارالعلوم حقانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں مولانا کی شہادت کی سلسلے میں تعزیت کا سلسلہ جاری ہے اور ملک کے کئی زعماء بھی تشریف لا رہے ہیں۔آج پیر کو تیسرے روز تعزیتی اجتماع ہوگا ۔