پاکستان سمیت دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن ’ ورلڈ نرسز ڈے‘12 مئی کو بھرپور انداز سے منایا گیا

اس دن کے منانے کا مقصد اسپتالوں میں نرسز کے کردار اوران کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 13 مئی 2019 13:53

پاکستان سمیت دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن ’ ورلڈ نرسز ڈے‘12 مئی کو ..
کراچی( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین،13 مئی 2019ء، نمائندہ خصوصی، آصف خاں) پاکستان سمیت دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن ’ ورلڈ نرسز ڈے‘12 مئی کو بھرپور انداز سے منایا گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد معاشرے میں بیماری کی حالت میں اسپتالوں میں نرسز کے کردار اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اور ماڈرن نرسنگ کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ہے۔

جنھوں نے 1854کی جنگ میں صرف 38نرسوں کی مدد سے 1500زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کرکے صرف 4ماہ کی مدت میں شرح اموات کو 42 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد تک کردیا تھا۔پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ 1949میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951میں نرسز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی نرسیں آج بھی لاتعداد مسائل کاشکار ہیں۔

(جاری ہے)

نرسیں شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، تاہم نرسزجوش و جذبے سے عاری ہوں گی تو مریضوں کی صحت یابی مشکل ہوگی۔پاکستان میں صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ابھی تک ہم تربیت یافتہ نرسز اور مڈوائفز تیار نہیں کرسکے ہیں۔ ہمارے اسپتالوں میں کام کرنے والا نرسنگ اسٹاف وہ مہارت نہیں رکھتا جس کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مڈوائفز بھی اس طرح کی صلاحیت اور قابلیت نہیں رکھتیں کہ وہ گھروں میں محفوظ زچگی اپنے طور پر کراسکیں۔

ملک میں صحت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تقربیا تیرہ لاکھ نرسز اور دو لاکھ سے زائد مڈوائفز کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت پاکستان نرسنگ کونسل میں 80 ہزار نرسز رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان میں تربیت یافتہ نرسوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو خواتین اور مرد اس مقدس پیشے سے منسلک ہیں ،وہ انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ اور کم سہولتوں کے باوجود پیشہ ورانہ امور سرانجام دینے پر مجبور ہیں۔

اس وقت نامساعد حالات کی وجہ سے سالانہ 30ہزار سے زائد نرسز دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، تعداد کم ہونے کی وجہ سے موجودہ نرسز پر کام کا بے پناہ دباﺅ ہے جس کی وجہ سے اکثریت میں ڈپریشن، کمردرد، کی بیماریاں عام ہیں۔میڈیا نے ہمشہ نرس کو منفی کردار میں دکھایا ہے جس سے عوام میں انکا اچھا تاثر نہیں جاتاہیں۔کراچی میں دارالصحت اسپتال کے معاملے میں میڈیا نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

جو کہ صحافت کے بھی منافی تھا، بنا تصدیق کے ایڈ نرس کو اسٹاف نرس بنا دیا۔ ایڈ نرس ایک سالہ نرسنگ کا کورس ہوتا ہے جن کو میڈیسن دینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی لیکن ہمارے میڈیا نے اسکو اسٹاف نرس بنادیا جسکی وجہ سے عوام کے دل میں نرس کا منفی امیج بنتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو نرسز کا امیج مثبت انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ عوام میں انکا اچھا تاثر قائم ہوسکیں اور ملک بھر میں نرسوں اور مڈوائفز کی تعلیم کے ساتھ ان کے اساتذہ کی جدید تربیت کا بندوبست کیا جائے،اس شعبے میں آنے والوں کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے اور ان کے موجودہ معاوضوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

تاکہ وہ احتجاجی دھرنوں کے بجائے اپنی پوری توجہ مریضوں پر اور پڑھانے والے اساتذہ پڑھائی پر مرکوز رکھ سکیں۔