اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا

نئی بنیادی شرح سود 13.25فیصد ہوگئی ہے، اگلے 2 ماہ میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے،افراط زرکی شرح رواں سال 11سے 12فیصد رہنے کا امکا ن ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی پریس کانفرنس

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 16 جولائی 2019 16:37

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔16 جولائی 2019ء) گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہاہے کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا ہے، نئی شرح سود 13.25فیصد ہوگئی ہے، اگلے 2ماہ میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے،افراط زرکی شرح رواں سال 11سے 12فیصد رہنے کا امکا ن ہے۔ انہوں نے آج یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جولائی میں مانیٹری پالیسی میٹنگ ہوتی ہے ۔

میٹنگ میں آئندہ دو مہینے کی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا ہے۔ جس کے بعد نئی شرح سود 13.25فیصد ہوگئی ہے،نئی شرح سود کا اطلاق 17جولائی سے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود کو بڑھانے کا فیصلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر کم ہونے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔اگلے 2ماہ میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

بنیادی شرح سود میں 100بیسزاضافہ ہوا ہے۔رضاباقر نے کہا کہ اگلے 2ماہ میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔افراط زرکی شرح رواں سال 11سے 12فیصد رہنے کا امکا ن ہے۔2020ء میں ہماری کوشش کہ افراط زر کو مزید نیچے لایا جائے۔ دوسری جانب ملک میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 50فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور یہ 4 سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ اعداد و شمار کے مطابق ایف ڈی آئی گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 3 ارب 47 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب 73 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہی۔

یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت میں سامنے آئے جب حکومت بڑی مالی اور مالیاتی ضروریات، کمزور اور غیرمتوازن ترقی کے سخت اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے باعث ملک میں سب سے بڑے سرمایہ کار چین سے مالی سال 18 کے 2 ارب ڈالر کے مقابلے میں سرمایہ کاری کم ہو کر مالی سال 19 کے دوران 54 کروڑ ڈالر رہی۔

دوسری جانب اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں امریکہ سے مالی سال 18 کے دوران 15 کروڑ 50 لاکھ ڈالر آئے جبکہ مالی سال 19 کے دوران 57 کروڑ 50 لاکھ ڈالر واپس گئے کیونکہ گزشتہ سال میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے۔اسی طرح اس عرصے میں برطانیہ سے سرمایہ کاری میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی اور یہ مالی سال 18 کے 21 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 23 کروڑ ڈالر رہے، تاہم دیگر ممالک جاپان سے 11 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، ناروے سے 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر، یو اے ای سے 10 کروڑ 18 لاکھ ڈالر اور ترکی سے 7 کروڑ 37 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔

علاوہ ازیں شعبے کے لحاظ سے سرمایہ کاری دیکھیں تو تعمیراتی شعبے میں 42 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی متوجہ سرمایہ کاری ہوئی، اس کے علاوہ تیل اور گیس کے شعبے میں 30 کروڑ 88 لاکھ ڈالر، مالیاتی کاروبار میں 28 کروڑ 65 لاکھ ڈالر سرمایہ کاری ہوئی جبکہ کیمیلز کے شعبے میں گزشتہ سال کے 4 کروڑ 89 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 13 کروڑ 45 لاکھ ڈالر رہی۔دوسری جانب کول پاور سیکٹر، خوراک سمیت مشروبات کے شعبے میں بالترتیب 45 کروڑ 30 لاکھ ڈاکر، 2 کروڑ 35 لاکھ ڈالر اور 96 لاکھ ڈالر کی آمدنی واپس چلی گئی۔