جج ارشد ملک مبینہ ویڈیوکیس:سپریم کورٹ کا ایف آئی اے کو3ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم
تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے، عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے، عدالت فریقین کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتی ہے.ریمارکس
میاں محمد ندیم منگل 23 جولائی 2019 14:00
(جاری ہے)
اس دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات سے متعلق دائر درخواستوں کی مخالفت کی گئی اور اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایسے معاملات کے لیے علیحدہ فورم موجود ہے، جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں.
ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے عدالت کو بتایا کہ پیمرا قانون کا اطلاق ٹی وی چینل پر ہوتا ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدات نے تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے، ہم نے عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے، سپریم کورٹ دونوں فریقین کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتی ہے. اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواستوں میں جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کی بھی استدعا کی گئی جبکہ جج ارشد ملک بیان حلفی بھی جمع کروا چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کراو چکے ہیں. اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جج ارشد ملک کی شکایت پر ایف آئی اے سائبر کرائم کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے، سائبر کرائم کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے ج±رمانہ ہے جبکہ فحش وڈیو یا تصویر بنانے کی سزا 5 سال قید اور 6 لاکھ روپے جرمانہ ہے. سماعت کے دوران انہوں نے مزید بتایا کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے وڈیو یا تصویر بنا کر پھیلانے کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے جبکہ الیکٹرانک جعل سازی پر 3 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے ج±رمانہ ہے. اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ایف آئی اے نے ملزم طارق محمود کو اس کیس میں گرفتار کیا ہے اور ریمانڈ لے کر انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے، میاں طارق محمود کے مطابق انہیں جو چیک دیا گیا جو کیش نہیں ہوا جبکہ میاں سلیم رضا نامی شخص کو طارق محمود نے وڈیو فروخت کی. اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اس معاملے میں کتنی ویڈیوز حاصل کی گئیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ویڈیو کی نقل یو ایس بی میں حاصل کی گئی، اس وڈیو میں کیا ہے ہم نہیں جانتے، پاکستان میں کوئی لیبارٹری مستند فرانزک نہیں کر سکتی. اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ویڈیو حاصل کی گئی وہ نقل ہے اصل نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی جو وڈیو برآمد ہوئی وہ اصل کی نقل ہے، سال 2000 سے 2003 کے دوران یہ وڈیو بنائی گئی. اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ جج نے ایسی حرکت کی تب ہی وڈیو بنائی گئی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بطور جج ارشد ملک کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی، انہوں نے مریم نواز کی جانب سے جاری وڈیو کے کچھ حصوں کی تردید بھی کی ہے، جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی. اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نواز شریف نے اپیل کب دائر کی تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ نواز شریف کی اپیل بروقت دائر ہوئی تھی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اپریل میں دائر ہوئی تو جج نے اپریل میں اس کا جائزہ کیسے لیا. چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی، اس پر پھر استفسار کیا گیا کہ پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی وڈیو جعلی تھی؟ آڈیو وڈیو کو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا، اگر جج صاحب کہتے ہیں وڈیو نہیں تو اصل وڈیو برآمد ہونی چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اصل وڈیو برآمد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے. اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت خود بھی چاہے تو کمیشن بنا سکتی ہے، آج میں حکومت کی نمائندگی نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پہلا آپشن ایف آئی اے ، دوسرا نیب، تیسرا تعزیرات پاکستان، چوتھا پیمرا، پانچواں حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا دیا. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ تمام درخواستیں خارج کردیں یا پھر آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت اس کی تحقیقات کروائے‘ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی تو کی جاسکتی ہے، چیئرمین نیب بھی یہ کارروائی کرسکتے ہیں. اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں دے سکتا، نواز شریف کو ریلیف ہائی کورٹ ہی دے سکتی ہے، جج نے ایک کیس میں سزا دی دوسرے میں بری کیا، ہائی کورٹ از سر نو ٹرائل کے لیے کیس بھیج سکتی ہے، ہائی کورٹ شواہد کا جائزہ لے کر خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے. دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا کہ جج کی تضحیک ہوئی یا الزام سچ تھا، ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، جس پر ساتھ ہی جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ تمام کارروائی متعلقہ فورم پر ہونی چاہیے. اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے، کیا اس سے فائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی؟ کیونکہ ہائی کورٹ میں ابھی تک کسی فریق نے درخواست نہیں دی‘چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں، ہم تحقیقاتی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کریں گے، ہم اندھیرے میں چھلانگ نہیں لگائیں گے، کچھ لوگ تو چاہتے ہوں گے کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ لگا دیں. چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے اور ایف آئی اے کی انکوائری کب تک مکمل ہوسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحقیقات میں 2 سے 3 ہفتے لگیں گے‘اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کی بات ہے اتنا الزام لگا کر بھی ہائی کورٹ کو نہیں بتایا گیا کہ جج نے یہ کیا کیا، حیرت کی بات ابھی تک ہائی کورٹ میں کوئی بھی نہیں گیا اور کسی فریق نے درخواست نہیں دی. تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تمام شواہد کا جائزہ لیں گے اور کسی کا نقصان نہیں کریں گے، ایف آئی اس معاملے کی 3 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرے اور انکوائری رپورٹ دے. عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل ایف آئی اے کی تحقیقات جلد مکمل کروائیں، بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے متلوی کردی گئی.مزید اہم خبریں
-
مارکیٹ میں گندم کے نرخ 3 ہزار سے نیچے گر گئے
-
6 ججز کے خط پر اب تک اٹھائے جانیوالے اقدامات ناکافی، غیرمؤثر اور عدلیہ کے مستقبل کیلئے نہایت خطرناک ہیں
-
عام تعطیل کا اعلان
-
آسمانی بجلی اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی، متعدد افراد جاں بحق
-
وزیر اعظم نے کابینہ ڈویژن کے سرکاری کاغذات لیک ہونے کا نوٹس لے لیا
-
علی امین گنڈاپور کو چاہیے مستقل اڈیالہ جیل میں ہی شفٹ ہو جائیں
-
اسٹیٹ بینک کی جانب سے مقامی مارکیٹ سے 4 ارب ڈالرز سے زائد خریدے جانے کا انکشاف
-
پاکستان کو غزہ کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے،وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف
-
طالب علموں کو پتا ہونا چاہیے کہ کونسی حکومت ہائرایجوکیشن کے لئے مخلص ہے، گورنرپنجاب
-
قومی اسمبلی اجلاس، وزراء کی عدم شرکت پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق برہم
-
ایران کی صدر کے دورہ سے متعلق اپوزیشن کو اعتماد میں لیں گے،اسحاق ڈار
-
آزاد ویزہ پالیسی کا حامی ہوں ،چاہتا ہوں سکھوں کے لئے پاکستان کے ویزے آسان کردیئے جائیں ، محسن نقوی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.