سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف قراداد منظور کرلی

قومی سلامتی کمیٹی کا ایجنڈا بہت مثبت ہے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے پانچ نکات میں تین میری تجویز تھیں، مشاہد ڈحسین

جمعہ 9 اگست 2019 17:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اگست2019ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف قراداد منظور کرلی ۔ جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا سینیٹر مشاہد حسین کی زیر صدارت اجلاس ہوا ۔مشاہد حسین سید نے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی کا ایجنڈا بہت مثبت ہے۔

انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے پانچوں نکات جاندار تھے۔ انہوںنے کہاکہ اس میں تین نکات وہی تھے جو. میں نے پیش کئے ۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ متحدہ عرب امارات کے علاوہ کون سے ممالک ہیں جنھوں نے کہا ہے کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے ۔سپیشل سیکرٹری وزارت خارجہ معظم علی نے بتایاکہ متحدہ عرب امارات کے سفیر نے بھی اس بیان سے اظہار لاتعلقی کیا ہے ۔

(جاری ہے)

ستارہ ایاز نے کہاکہ کیا کرتارپور بند کی جارہی ہے ۔ معظم علی نے کہاکہ کرتار پور راہداری پر کام جاری رہے گا ۔ ستارہ ایاز نے کہاکہ ہم کرتار پور راہداری بند کیوں نہیں کر رہے ،ہم کرتار پورہ راہداری کو بند کر کے بھارت پر ان کے سکھوں کی جانب سے دباؤ پیدا کر سکتے ہیں۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ میرے خیال میں پاکستان کا یہ اقدام سکھوں کے فائدے میں ہے ۔

مشاہد حسین سید نے کہاکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے پانچ نکات میں تین میری تجویز تھیں۔سپیشل سیکرٹری وزارت خارجہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ بھارت کے ہائی کمشنر کو پاکستان چھوڑنے کا کہا اور وہ چلے گئے۔انہوںنے کہاکہ سفارتی سطح پر کوششیں تیز کر دیں ہیں، ابتدائی طور پر وزیر خارجہ چین کا دورہ کر رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کرتارپور کریڈور کو بند کرنے کا کوئی پلان نہیں۔

انہوںنے کہاکہ یکم اگست کو وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا،ہمیں ہندوستان کے ہر اقدام کو مانیٹرکرنے ہوں گے۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہاکہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے مذہبی آزادی نہیں تو ہمیں اس کی کیا ضرورت ۔ سپیشل سیکرٹری نے کہاکہ کیا ہندوستان نے مذہبی آزادی پر قدغن لگائیں ہیں تو ہم بھی ایسا کریں۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ کرتار پور راہداری گڈ ول جیسچر کیلئے کھلا رکھا گیا ہے،کرتارپور راہداری سے مودی حکومت بھی خوش نہیں۔

انہوںنے کہاکہ کرتارپور راہداری کو سکھوں کی مذہبی مقامات تک رسائی کیلئے کھلارکھا گیا ہے،سکھ چونکہ ہندوستان میں بھی محروم کمیونٹی ہے۔ انہوںنے کہاکہ مودی نے خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی ایک وجہ دہشتگردی کا خاتمہ رکھا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ خارجہ پالیسی صرف حکومت کا نہیں اپوزیشن کی رائے کی روشنی میں بنی ہیں۔انہوںنے کہاکہ مودی کی سوچ اکھنڈ بھارت والی ہے،رحمن ملک کی دو کتابوں کو تمام سفارتخانوں کو بھجوائیں جائیں۔

رحمن ملک نے کہاکہ ہمارے پاس تین آپشنز ہیں،پہلا جنگ کا ہے مگر ہندوستان جنگ کرنے کی جرات نہیں کریگا،ہندوستان افغانستان کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریگا۔انہوںنے کہاکہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کریگا۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے پاس سفارتی اور قانونی راستے کا آپشن موجود ہیں۔

انہوںنے کہاکہ کلبھوشن کیس کو ویانا کنونشن کے تحت بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھایا گیا۔انہوںنے کہاکہ اگر پاکستان نے آئی سی جے سے رجوع نہ کیا تو انڈیا کوئی اور آپشن ڈھونڈیگا۔انہوںنے کہاکہ بھارت میں مودی ازم اور نہرو ازم جنم لے رہا ہے۔ ہمیں کسی اور معاملے میں الجھانے سے پہلے ہمیں خود مودی کو الجھانا ہو گا۔رحمن ملک نے کہاکہ ہم اپنی تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں،جو کام موجودہ دفتر خارجہ قائمہ کمیٹی کی رہی ہے وہ ماضی کی کمیٹیاں کرنے میں ناکام رہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ آپ کی کتاب بھارت وزیر اعظم کو بھیجی جانی چاہیے ،کتاب کی سو نقول دفتر خارجہ کو بھجوایا دیں تاکہ تمام سفارت خانوں کو بھجوایا جا سکے۔ رحمن ملک نے کہاکہ ہمارے پاس 3 آپشن ہیں،ہمارے مسائل افغانستان سے شروع ہو رہے ہیں،بھارت ہماری افغانستان سے دوستی کو پسند نہیں کرے گا۔ انہوںنے کہاکہ وہ ہر ممکن اقدامات اٹھا ے گا جس سے ہماری افغانستان سے دوستی خراب ہو۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان میں موجود گروہ امریکہ کے عمل کو پسند نہیں کرتے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ پاکستان کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انہوکںنے کہاکہ اس وقت ہم جو بھی کر رہے وہ درست ہے ،میں نے اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ بھارت آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کرے گا۔ انہوںنے کہاکہ پہلا آپشن سفارت کاری اودوسرا عالمی عدالت انصاف میں جانے کا ہے،عالمی عدالت انصاف میں ہم کشمیریوں کیانسانی حقوق کی خلاف وردیوں پر ایک مضبوط کیا تیار کر سکتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ تیسرا آپشن بھارت میں انتہا پسند تنظیموں اور گاندھی کے نظریات کے ٹکراؤ سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔انہوکنے کہاکہ را اور آر ایس ایس کا گٹھ جوڑ ہے۔ انہوںنے کہاکہ مودی کو مرکزی نشانہ بنانا ہو گا،پورا بھارت ہمارے خلاف نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت کی جانب سے پلوامہ طرز کا ایک نیا واقعہ کیا جا سکتا ہے،اسی لئے میں نے مودی کو بطور جنگی جرائم کا مجرم انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بات کی تھی۔