Live Updates

شاہد خاقان عباسی کے ذریعے نواز شریف کو سمجھوتے پر راضی کرنے کے لیے ایک خط تحریر کروایا گیا

شاہد خاقان عباسی کو یہ خط تحریر کرنے کا پیغام دینے میں تین اہم ترین لیگی رہنما سرکردہ تھے۔ خاتون صحافی غریدہ فاروقی نے ڈیل کی حقیقت بیان کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 11 ستمبر 2019 12:27

شاہد خاقان عباسی کے ذریعے نواز شریف کو سمجھوتے پر راضی کرنے کے لیے ایک ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11 ستمبر 2019ء) : سابق وزیراعظم نواز شریف کی گرفتاری کے بعد سے ہی ڈیل کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں جن میں حال ہی میں اضافہ ہوا۔ ایسے میں ڈیل کی حقیقت سے متعلق خاتون صحافی غریدہ فاروقی نے کچھ معلومات حاصل کیں جنہیں اُنہوں نے اپنے حالیہ کالم میں تحریر کیا۔ غریدہ فاروقی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ہر بار کی بات چیت میں کلیدی کردار شہباز شریف کا رہا۔

اسی طرح ہر بار کی ناکامی میں بھی نام شہباز شریف کا ہاتھ رہا۔ نواز شریف تو شہباز شریف پر اعتماد کر لیتے لیکن مریم نواز جماعت کا اور سیاسی وراثت کا خلاء شہباز شریف کے حوالے کرنے پر تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار شہباز شریف نے ایک نیا گُر آزمایا اور اپنے دوست اور نواز شریف کے انتہائی قابلِ اعتماد شاہد خاقان عباسی کے ذریعے نواز شریف کو سمجھوتے پر راضی کرنے کے لیے ایک خط تحریر کروایا۔

(جاری ہے)

شاہد خاقان عباسی کو یہ خط تحریر کرنے کا پیغام دینے میں تین اہم ترین لیگی رہنما سرکردہ تھے جن میں سے ایک کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ کئی بار عمران خان کو انتخابات میں شکست بھی دے چکے ہیں۔ دوسرے رہنما کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور تیسری اہم رہنما ایک خاتون تھیں جنہیں بیک وقت مریم نواز اور شہباز شریف دونوں کا اعتماد حاصل ہے۔ شاہد خاقان عباسی چونکہ نواز شریف کے انتہائی قریبی ہیں، نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد خود ان کا نام اگلے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا، دھیمے مزاج کے مفاہمانہ طبیعت رکھنے والے شاہد خاقان عباسی کو پیغام رسانی کے لیے اسی لیے منتخب کیا گیا کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ مریم نواز بھی اعتماد اور اعتبار کر سکیں۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس بار کے ڈیل پیکیج میں شہباز شریف کے ساتھ شاہد خاقان عباسی کا نام بھی شامل ہے کہ شاید کسی اہم ذمہ داری کے لیے قرعہ فال ان کے نام کا بھی نکل سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے ذریعے پیغام رسانی کر کے نواز شریف کو یہ بھی پیغام پہنچایا گیا کہ اس بار صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ پارٹی کے دیگر رہنما بھی ڈیل، سمجھوتے یا بات چیت کے حامی ہیں۔

اور اس کی واضح مثال گذشتہ کچھ دنوں میں کُھل کر سامنے بھی آ گئی جب مسلم لیگ ن میں دو دھڑے کُھل کر سامنے آ گئے۔ مسلم لیگ میں ایک دھڑا ایک ڈیل ایگزٹ کا حامی اور دوسرا دھڑا نو ڈیل نو ایگزٹ کا حامی ہے۔ اس سے پہلے کہ ماضی قریب میں ڈیل کو لے کر ن لیگ میں اتنی واضح دراڑ دیکھنے میں نہیں آئی۔ وجہ وہی ہے کہ ایک ایک کر کے نون لیگ کے سرکردہ رہنما احتساب کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔

صفِ اول کی آدھی سے زائد قیادت جیلوں میں ہے یا مقدمات کا شکار ہے۔ ایسے میں جو باقی ماندہ ہیں وہ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اب غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں خاص طور پر مریم نواز کی دوبارہ گرفتاری کے بعد سے۔ اب ڈھکے چھپے انہیں بھی احساس ہو گیا ہے کہ حالات بہت زیادہ بدل چکے ہیں اور اگر کہیں کوئی امکانات باقی بھی تھے تو اب معدوم ہو چکے۔

سیاسی بقاء اگر ممکن بھی ہے تو صرف شہباز شریف فارمولے کے تحت۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ڈیل ہو کس کے ساتھ رہی ہے۔ یہ انتہائی بچگانہ سوال ہے۔ پاکستان میں سب کو معلوم ہے کہ اس طرح کے اور اس سطح کے معاملات کہاں پر طے پاتے ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہو گا کہ کیا عمران خان آن بورڈ ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سوال یہ بھی کر رہے ہیں کہ مقتدر حلقے ڈیل کیوں کرنا چاہتے ہیں۔

مختصراً عرض ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو اور اس جیسی اور اس سے بھی خطرناک دیگر ویڈیوز اور آڈیوز ایک وجہ ہے۔ دوسری وجہ ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف عرصہ گزرنے کے باوجود کیسز میں ٹھوس ثبوت کے ساتھ پیش رفت نہ ہونا، اس طرح کے کمزور مقدمات میں جتنی دیر اپوزیشن کو جکڑے رکھا جائے گا اتنا احتساب کا نظریہ کمزور ہو گا، ایک اور وجہ دو تین دوست ممالک کی مدد اور مداخلت کا بھی ہے۔

اس میں سے کچھ دوست ممالک کے اعلیٰ عہدے دار گذشتہ دنوں اسلام آباد بھی تشریف لائے تھے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مقتدر حلقوں کا یہ خیال ہے کہ جتنی دیر عمران خان کے مخالفین پاکستان میں رہیں چاہے زنداں میں ہی کیوں نہ ہو، وہ عمران خان کے لیے سیاسی خطرہ بن سکتے ہیں۔ پانچویں اور انتہائی اہم وجہ مقتدر حلقوں کی نفسیاتی سوچ ہے۔ وہ ہر حال میں نواز شیرف کو ماضی کی طرح ڈیل پر راضی کرنا چاہتے ہیں اور اپنی قوت کو خود اپنے سامنے منوانا چاہتے ہیں۔

مقتدر حلقوں کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں کہ ماضی میں تو نواز شریف ڈیل کے تحت جلا وطن ہو جائیں اور اس بار مسلسل منظر نامے پر موجود رہیں۔ بہت سے معاملات میں مقتدر حلقوں کی سوچ اور پالیسی آج بھی گذشتہ دہائیوں سے مماثلت رکھتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈیل ہو رہی ہے تو نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو دھرنے میں شرکت کا پیغام کیوں بھجوایا؟ یہاں انتہائی اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف کا یہ پیغام ان کے داماد اور مریم نواز کے شوہر اور کیپٹن (ر) صفدر نے کیوں پہنچایا؟ یہ پیغام شہباز شریف کے ذریعے کیوں نہیں گیا ؟ غریدہ فاروقی نے کہا کہ اس معاملے پر میری ذاتی رائے میں اس پیغام رسانی کے ذریعے نواز شریف صرف اپنی بارگینگ قوت بڑھانا چاہتے ہیں اور ن لیگ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت نہیں کرے گی۔

فی الحال تو اس دھرنے کے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات