یک جج کے لیے روزانہ 50، 60 کیسز دیکھناممکن نہیں، اٹارنی جنرل پاکستان

مسئلہ ججز کی کمی نہیں، ہم ججز پر بوجھ بڑھا رہے ہیں، انور منصور خان کا نیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرمنل جسٹس سسٹم کے تمام اداروں کو ٹیکنالوجی کی مدد سے آپس میں جوڑ رہے ہیں، وفاقی سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن کانفرنس سے جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی، ندیم شیخ ایڈووکیٹ اور دیگر کا خطاب، ایوارڈز بھی دئیے گئے

اتوار 6 اکتوبر 2019 20:40

#کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اکتوبر2019ء) اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے کہا ہے کہ روزانہ پچاس، ساٹھ کیسز ہوتے ہیں، ایک جج کے لیے ان کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، مسئلہ ججز کی کمی کا ہے، ہم ججز پر بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ پروسیجرل لاز کو بدلنے کی ضرورت ہے، جھوٹے کیسز کرنے والوں پر بہت بھاری جرمانہ ہونا چاہیے، امریکہ میں جھوٹے کیس کی حوصلہ شکنی کے لیے وکلا پر جرمانے ہوتے تھے۔

یہ بات انہوں نے ہفتے کی شب جسٹس ہیلپ لائن کے تحت مقامی ہوٹل میںمنعقدہ چوتھی نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں اپنے صدارتی خطاب میں کہی۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے مزید کہا کہ ایسی کانفرنس سے قانون کی آگاہی پھیلانے میں بہت مدد ملتی ہے، بنچ اور بار کے درمیان تعلق کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

قبل ازیں کانفرنس کے منتظم صدر جسٹس ہیلپ لائن ندیم شیخ ایڈووکیٹ نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ جسٹس ہیلپ لائن قانون کی آگاہی اور حکمرانی کے لیے کوشاں ہے، چوتھی نیشنل جوڈیشل کانفرنس سے نوجوان وکلاء کو بھی بہت آگاہی ملی ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عرفان سعادت خان نے بتایا کہ سول اور کرمنل کیسز اب جلدی سے نمٹائے جارہے ہیں، 2017میں زیرالتوا کیسز کی تعداد 83ہزار 884 تھی جو 25 ستمبر 2019 تک کم ہو کر 80ہزار 335 رہ گئی ہے۔ اس سال لاڑکانہ اور کراچی میں زیرالتوا کیسز بڑھے ہیں تاہم حیدرآباد اور سکھر میں ایسے کیسز میں کافی کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چوتھی نیشنل جوڈیشل کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے، اس کانفرنس سے قانون میں ضروری ترامیم کی اہمیت مزید اجاگر ہوگی۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ پہلے ججز کے لیے چند قوانین میں مہارت کافی سمجھی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب ملک میں 300سے زائد قوانین موجود ہیں اور ان کاعلم ہونا بہت ضروری ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے لیے ٹیکنالوجی متعارف کرانے جارہے ہیں، ٹیکنالوجی سالوشن قانونی اداروں میں مسائل حل کرنے کے لیے بھی بہت اہم ہے۔

ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے ہم مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن لارہے ہیں، کرمنل جسٹس سسٹم کے تمام اداروں پولیس ، جیل، پراسیکیوشن اور عدالتوں کو آپس میں جوڑیں گے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی نے کہا کہ وکلاء درخواست گزاروں کو غلط آسرے نا دیا کریں، کیس دیکھیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور درخواست گزار کو صاف صاف بتائیں۔

جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی نے کہا کہ جعلی دستاویز اور شواہد والے کیسز کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی نے کہا کہ وکلاء جعلی دستاویز اور شواہد والے کیسز لے ہی نا، اس سے ان کی ساکھ بہتر ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ کچھ وکلا تاریخ پر تاریخ لینے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ انہوں نے تجویزدی کہ پہلی تاریخ پر کچھ جرمانہ، دوسری پر مزید جرمانہ اورپھر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچاس فیصد کیسز جعلی دستاویزات پر ہوتے ہیں جن میں ان کے وکلاء بھی ملوث ہوتے ہیں۔جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی نے کہا کہکیس منیجمنٹ سسٹم میں ارجنٹ کیسز کا ایک بینچ الگ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرز پر ہائی کورٹ کو بھی ویڈیو لنک سے جوڑنا چاہیے۔ صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن محمد عاقل ایڈووکیٹ نے کہا کہ بار اور بنچ کے درمیان اچھا لائژن ہواور وکلاء کی اچھی معاونت فراہم کی جائے کورٹ کو تو اس کے فیصلے ماضی کی طرح بڑے مثالی ہوں گے۔

ایسی کانفرنسز ہوتی رہنی چاہیے۔ ندیم شیخ ایڈووکیٹ نے جو بیٹرا اٹھایا ہے، سندھ ہائی کورٹ بار مکمل سپورٹ کرتی ہے۔کانفرنس میں ایک مباحثے کا بھی اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن سندھجسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی، کراچی بار ایسوسی ایشن نعیم قریشی ایڈووکیٹ، سابق ڈائریکٹر لاء ایف آئی اے سید اسرار علی ایڈووکیٹ، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل ضیا ء الحق مخدوم، سربراہ اپیلٹ ٹریبونل سندھ ریونیو بورڈ جسٹس ریٹائرڈندیم اظہر صدیقی، ڈین فیکلٹی آف لاء ضیا الدین یونیورسٹی شائستہ سرکی،ڈین فیکلٹی آف لاء ہمدرد یونیورسٹی جسٹس ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر قمرالدین بوہرہ، سینیٹر حسیب خان، چیئرمین ایف پی سی سی آئی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی ندیم خان، سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات سندھ عبدالرحیم سومرو، جی این قریشی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شمزہ فاطمہ، اسسٹنٹ پروفیسرآف لاء، بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان،چیئرمین انٹر بورڈ کراچی پروفیسر انعام احمد، سربراہ نیشنل انٹر فیتھ ہارمونی کونسل آف پاکستان راؤ ناصر علی جہانگیر، جامعہ الرشیدکے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزسید ایازشاہ اور دیگر بھی موجود تھے۔

نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں بہترین خدمات پر سابق ججز اور سینئر وکلا کو گولڈ میڈلز اور اعزازات پیش کیے گئے۔ ممتاز صنعتکار و سابق صدر ایف پی سی سی آئی میاں ادریس، ڈاکٹر فرحان عیسیٰ ، سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے سیداسرارعلی، چیئرمین فیڈرل سروسز ٹریبونل جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد علی،شہید ذوالفقار علی بھٹو لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر رانا شمیم اور دیگر کے لیے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔

تقریب کے دوران سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ تصدق حسین جیلانی اور سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ صبیح الدین احمد مرحوم کے گولڈ میڈلز بیرسٹر صلاح الدین نے وصول کیے۔ کانفرنس میں حاضر سروس و ریٹائرڈجج صاحبان، جوڈیشل افسران، سینئر و نوجوان وکلاء نے بھرپور شرکت کی۔