سپریم کورٹ کا ایمل ازخود نوٹس کیس میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو نیشنل میڈیکل سنٹر کیخلاف انکوائری کا حکم

جمعرات 17 اکتوبر 2019 23:21

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اکتوبر2019ء) سپریم کورٹ نے کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی ایمل نامی کمسن بچی کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو نیشنل میڈیکل سنٹر کیخلاف انکوائری کا حکم جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ہے اور ہدایت کی ہے کہ واقعہ کی انکوائری کرکے ایک ماہ میں عدالت کو رپورٹ جمع کرائی جائے۔

عدالت نے صوبائی حکومت سے متاثرہ والدین کوامدادی رقم نے دینے پرجواب طلب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلحہ صرف پولیس افسران کے پاس ہوناچاہئے کیونکہ پولیس اہلکار گولی کہیں مارتے ہیں لگتی کہیں اور ہے، سندھ میں انسانی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں وسائل خرچ کئے جائیں۔ جمعرات کوجسٹس گلزاراحمد اورجسٹس منیب اخترپرمشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پرجسٹس گلزاراحمد نے سندھ حکومت اور کراچی پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کرکراچی پولیس آخرکرتی کیا ہے جس کی فائرنگ سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں، وہاں کے پولیس کو فائر کہیں اور مارنا ہوتا ہے اور لگتی کہیں اور ہے اس لئے اسلحہ اہلکاروں کے پاس نہیں بلکہ صرف پولیس افسران کے پاس ہونا چاہئے۔ فاضل جج نے کراچی پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ کراچی میں ٹریفک سگنل پر رکے لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں اور وہاںپولیس کی ناک کے نیچے منشیات کا دھندا ہوتا ہے اورکالا پٴْل پر اس وقت بھی نشئی سوئے پڑے ہونگے۔

عدالت کوبتایا جائے کہ ایمل کو قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں کا کیا بنا اورکراچی میں ہسپتالوں کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کراچی میں ہسپتالوں کاحال یہ ہے کہ ایمرجنسی میں مریض کے لواحقین کو دوائی لینے کیلئے بازار بھجوا دیا جاتا ہے اور جب لواحقین دوائی کیلئے لائن میں لگے ہوتے ہیں تو ان مریض اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ہسپتالوں کا کام ہے کہ وہاں ہرمریض کوادویات فراہم کی جائیں۔

سماعت کے دوران ایمل کے والدین کے وکیل نے عدالت کوآگاہ کیاکہ جن اہلکاروں کی گولی سے بچی ہلاک ہوئی ہے ان کیخلاف مقدمہ چل رہا ہے جبکہ نیشنل میڈیکل سنٹر کی رجسٹریشن بھی امل کی ہلاکت کے بعد کی گئی ہے۔ فاضل جج نے ہیلتھ کمیشن سندھ کے سربراہ سے استفسارکیاکہ کیا آپ نے خود جاکرسندھ کے ہسپتال دیکھے ہیں کہ وہاں کیا حالت ہوتی ہے کیوں نہ غفلت برتنے پر ہیلتھ کیئر کمیشن کیخلاف مقدمہ درج کر ایاجائے سوال یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2013 ء میں بن گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد چار سال بعد شروع ہوا۔

بتایاجائے کہ چار سال تک ایکٹ الماری میں پڑے رہنے کا ذمہ دور کون ہے جس پرسندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایاکہ سندھ میں نجی ہسپتالوں کی رجسٹریشن جاری ہے جس کے بعد لائسنس جاری کرنے کا مرحلہ آئے گا تاہم اس وقت سندھ میںکوئی ہسپتال لائسنس یافتہ نہیں اورصوبائی حکومت نے ہسپتالوں کے حوالے سے ایمل عمر ایکٹ منظور کر لیا ہے جس کے تحت نجی ہسپتال بھی مریضوں کا علاج کرنے کے پابند ہونگے۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے استفسارکیاکہ ہیلتھ کیئر کمیشن کا سالانہ بجٹ کتنا ہے جس پرعدالت کوبتایا گیاکہ کمیشن کا سالانہ بجٹ 36 کروڑ روپے ہے، توفاضل جج کاکہنا تھاکہ اتنی رقم تو تنخواہوں اور دفاتر کے کرائے میں لگ جاتی ہوگی، اس لئے صوبائی حکومت کومحکمہ صحت کیلئے وسائل فراہم کر نے کے ساتھ تعلیم اورانسانی وسائل کی ترقی پر بھی پیسہ لگانا ہوگا، عدالت کوسندھ حکومت کے وکیل نے استفسارپر بتایا کہ کیا ایمل کے والدین نے کبھی امداد نہیں مانگی جبکہ ایمل کے والدین کے وکیل نے بتایاکہ ایمل کے والدین کو امداد کی سفارش انکوائری کمیٹی نے کی تھی۔

بعدازاں عدالت نے نیشنل میڈیکل سنٹر کیخلف انکوائری کا حکم جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی اور ہدایت کی ہے کہ واقعہ کی انکوائری کرکے ایک ماہ میں عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جائے ۔